|
.
اس سے کسی بھی معاشرے کے داخلی عمل، فکری رویّے اور معاملاتی اندازِ نظر کو
ہم زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً ’اشنان دھیان‘ ہندو معاشرے کا ایک خاص
اندازِ عبادت ہے کہ وہ اشنان کرتے ہیں تو گویا سورج کو جل چڑھاتے ہیں۔ آفتاب پرستی
قوموں کا بہت قدیم مذہب ہے اور اِس آفتاب پرستی کا پانی سے گہرا رشتہ ہے۔ اسی لیے
اشنان کے وقت بھی سورج کا جل چڑھایا جاتا ہے۔ (۶۰) آفت توڑنا۔ آفت کے معنی
مصیبت، سانحہ اور شدید پریشانی کے ہیں۔ آدمی کی زندگی میں اس طرح کے تکلیف دہ موقعے
آتے رہتے ہیں کہ وہ اچانک کسی پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے یا کسی دکھ کا سامنا
کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ دکھ زیادہ تر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی دین ہوتے
ہیںمگر اس میں انسان ہمارے عزیز رشتے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والے شریک رہتے
ہیں۔ انہیں کی وجہ سے یہ ہوتا بھی ہے۔ اب وہ اپنے ہوں یا غیر، وہی مصیبت کا باعث
ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ’آفت ڈھاتے ہیں‘، کچھ لوگ ’آفت اُٹھاتے ہیں‘، کچھ لوگ ’آفت توڑتے
ہیں‘۔کچھ لوگ اس کی وجہ سے یا کسی اچانک حادثے کے باعث ’آفت رسیدہ‘ ہوتے ہیں، جنھیں
’آفت زدہ‘ یا ’آفت کا مارا‘ کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں شاعر اپنے آپ کو سب سے زیادہ
آفت زدہ یا آفت رسیدہ خیال کرتاہے۔ اس میں غم جانا بھی شامل رہتا ہے غم جان اوربھی۔
جہان آفت خودایسا لفظ ہے جوتہذیبی رشتوں پر روشنی ڈالتاہے۔ اصل میں یہ لفظ ’’آپتی‘‘
ہے جوسنسکرت لفظ ہے۔ وہاں سے ہندوی بھاشاؤں میں آیاہے اورفارسی میں ’’پ‘‘ کے بجائے
’’ف‘‘ آگئی اورتشدید غائب ہوگیا اُردو نے بھی اسے فارسی انداز کے ساتھ قبول کیا جس
کے ذریعے ہم زبانوں کے باہمی رشتوں کوبھی سمجھ سکتے ہیں۔ ذہنوں اورزمانوں کے آپسی
لین دین کو بھی۔ (۶۱) آفت کا پرکالہ (لپکتا ہوا شعلہ)۔ غیرمعمولی طورسے ذہین
اورشرارت پسند آدمی کو آفت کا’’ پرکالہ‘‘ کہتے ہیں۔ آفت کا ٹکڑا بھی اسی ذیل میں
آتا ہے ۔ ایک اورمحاورہ آفت کی چھٹی ہے۔ چھٹی خط کو کہتے ہیں ۔ اب سے کچھ زمانہ
پہلے تک ڈاکیہ کو چھٹی رساں کہتے تھے۔ یعنی خط پہنچانے والا۔ چھٹی رساں کا لفظ بھی
ایک ایسی ترکیب پر مشتمل تھا جس میں ایک لفظ ہندی اوردوسرا فارسی تھا۔ آفت کی چھٹی
بھی اسی طرح کا ترکیبی لفظ ہے جس سے ہماری زبان کی ساخت اورپرداخت کا علم ہوتا ہے۔
خط آنے پر ہمارے قصبوں اورخاص طورپر دیہات کے لوگوں میں ایک طرح کی کھلبلی سی مچ
جاتی تھی۔ کہاں سے آیاہے؟ کس نے لکھاہے؟ کیا لکھا ہے؟ اورپھر یہ کہ اسے کون پڑھ
کرسنائے ؟ چٹھی میں کوئی بہت خوشی یا غم کی بات ہوتی تھی تواسے آفت کی چٹھی سمجھا
جاتا ہے۔ اب یہ رویہ اگرمحفوظ ہیں توہمارے اِن محاورات میں جومعاشرتی مطالعے کی
کنجیاں کہہ جاسکتے ہیں۔ (۶۲) اَفراتفری۔ یہ عربی لفظ ہے، اَفراط اورتفریط ،
یعنی بہت زیادہ اوربہت کم۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں توازن بگڑتا ہے اورچاہے وہ
معاملات ہوں، مسائل ہوں، مشغولتیں ہوں یا مصروفیات ہوں، تناسب اورتوازن کے بغیراُن
کا حُسن اوراُن سے وابستہ بھلائی اورعظمت قائم نہیں رہتی اورایک بے تکاپن پیدا
ہوجاتا ہے۔ اُردوالوں نے اسی کوایک نئے محاورے میںبدل دیا۔ اس کے تلفظ اوراملا
کوبھی نئی صورت دی اوراس کے معنی میں نئی جہت پیداکی۔ اب افراتفری کے معنی ہیں گڑبڑ
بھگدڑچھینا جھپٹی اوربے ہنگم پن۔ یہی بات سماج میں خرابی کا باعث ہوتی ہے اوراُس کی
قوت کوکمزوری اورخوبی کوخرابی میں بدلتی ہے۔ اس معنی میں اس مفہوم کا رشتہ انفرادی
عمل سے بھی قائم ہوتاہے اورجتماعی اعمال سے بھی جوہماری معاشرتی کارکردگی کی دائرے
میں آتا ہے ۔ (۶۳) اَفلاطون ہونا، افلاطون بننا۔۔
|