|
.
یہ ایک طرح کا نظر بندی کا عمل بھی ہے۔ اوریہاں کی جادوگری کا ایک حصّہ ہے مگراسی کے ساتھ اس کا ایک اور سماجی مفہوم ہے وہ یہ کہ آدمی جس طرح کے اعمال اختیار کرتا ہے وہی اس کے سنسکار میں جاتے ہیں جواس کے دل میںہوتا ہے وہی زبان میں ہوتا ہے آخر ہونٹوں تک کوئی بات دل سے گذرکریا دماغ سے اُتر کرہی آتی ہے ایسی صورت میں جس طرح کے کردارکا کوئی انسان ہوگا وہی اس کی رفتار وگفتار میں بھی سامنے آئے گا۔
(۷۲) آگ لگانا، آگ بجھانا ، یا لگانی بجھائی کرنا۔
یہ سماجی عمل ہے لوگ جھوٹ بولتے ہیں فتنہ پردازیاں کرتے ہیں یہ سیاسی مقصد سے بھی ہوتا ہے سماجی مقاصداس میں شریک رہتے ہیں۔ لوگوں کی اپنی کمینہ فطرت بھی ایسی صورت میں چاہیے افراد میں تعلقات بگاڑے جاتیں یا خاندانوں میں بہرحال وہ ایک سماجی سطح پر یہ کردار ہے۔ بعض جس کا اظہار آگ سے متعلق محاورات سے ہوتا ہے جیسے آگ بھڑکانہ یا آگ پانی کا بیرہونا آگ پھونکنا آگ اگلنا آگ لگاکر تماشہ دیکھنا آگ دینا آگ ہوئی تودھواں ہوگا وغیرہ۔ بعض محاورے عجیب وغریب ہیں جیسے آگ جوڑنا آگ روشن کرنے کی کوشش کوکہتے ہیں۔ آگ دھونا اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب محاورہ ہے ۔چلم پر رکھنے کے لئے جب انگار وں کو جھاڑا جاتا ہے اور راکھ الگ کی جاتی ہے تواسے آگ دھونا کہتے ہیں۔
(۷۳) آگے آگے چلنا ، یا ہونا ، آگوآگو کرنا۔
آگے آگے چلنا ہمارے یہاں ایک تہذیبی قدرہے ہراول دستہ ہمیشہ آگے آگے چلتا تھا شاہی سواری کے ساتھ خیمہ بردار اوردوسرے خادم ہمیشہ آگے رہتے تھے ان کو پہلے سے خیمے چھولدار یاں اور ڈیر ے لگا نے ہوتے تھے احتراما ًبزرگوں کے آگے آگے چلتے تھے۔ اورمقصدیہ ہوتا تھا کہ کسی بھی رکاوٹ دشواری اورخطرہ سے ان کو بچایا جائے۔ جہاں محاورے کے ساتھ آگوہ آگوبھی دیا گیا ہے اورآگاڑی آگاڑی کے ساتھ آگا ڑوآگاڑوآگاڑ بھی لکھا گیا ہے۔ یہ تلفظ راجستھانی اثرات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ لوگ ’’آگا‘ تلفظ ہویا ی کا دونوں کو وکے تلفظ میں بدل دیتے تھے اورگاڑھاکو گاڑہوکہتے ہیں اور’’مارا‘‘ کوماروکہتے ہیں۔ محاورے ہماری زبان کی قدیم شکل کو محفوظ رکھتے ہیں اس میں تلفظ املا بھی شریک ہے۔
(۷۴) آگے خداکانام
یہاں تک آگئے آگے خُداکانام ہے ساقی خداہمارے یہاں ایک فکری آئیڈیل ہے ہم جوعقیدتوں خیالوں‘ اورخوابوں میں بھی شریک رہتا ہے۔ یہاں یہ ظاہرکیاگیا ہے کہ ہم جس انتہا تک آگئے ہیں اِس کے بعدمیں خدا کانام ہے اورکچھ نہیں۔ معلوم ہوا کہ فکروخیال اورسعی وعمل کی وہ حدجسے ہم نقطۂ آخر کہہ سکتے ہیں وہ مقام آچُکا ہے اوراُس کے بعدخدا کانام ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں سوائے خداکے نام اورمحمدؐ کے کلمہ کے بات پھروہیں آئی کہ صورت جوبھی ہو انتہا کوپہنچ کرہم خدا کے نام کو سامنے رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہی اوّل ہے وہی آخرہے نہ اس سے پہلے کچھ تھا اورنہ اس کے بعدکچھ ہے۔
(۷۵) آگے سے ہوتی آئی ہے۔
ہمارامعاشرہ بنیادی طورپر روایت پرست ہے اورانسان نے اپنی راہ ارتقاء کے مختلف مرحلوں میں سوچاہے سمجھاہے نئے فیصلے کئے ہیں مگرمعاشرہ بنیادی طورسے روایت پسند رہا ہے یہ کہنا کہ آگے سے ہوتی آئی ہے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم جو کچھ سوچ رہے ہیں کررہے ہیں وہ پہلے سے چلی آتی ہوئی ایک روایت ہے۔
|