|
.
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو براکہتے ہیں یعنی اپنی سوچ کا عمل یہاں بھی موجود نہیںہے صدیوں کا سفر آنکھ بند کرکے روایت کی لکیر پر ہوتا رہا ہے آخراچھوں کوکیوں براکہا جاتا رہا ہے یہ کتنا بڑا سوالیہ نشان ہے مگر ہرآدمی نے روایت کا سہار لیا خود سوچا نہیں اوریہی انسانی معاشرے کی بہت بڑی کمزوری نارسائی اورناکامی ہے کہ اُس نے ایک بار کسی بات کو مان کر پھر اُس پر کبھی نہیں سوچا۔ اورTradition Boundروایت پرستی پرہمیشہ فخرکیا۔
(۷۶) آگے کا اُٹھاکرکھانے والا ،یاآگے کا اُٹھاکے کھانا۔
آگے کااُٹھاکھاکرنا یہی محاورہ دوسرے الفاظ میں بھی ملتا ہے ’’اوپر کا پڑا کھانا‘‘ اورہمارے معاشرے کی شدید کمزوریوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے یعنی بغیر محنت کے یابغیر حق کے کھانا جو مل گیا جسے مل گیا جہاں سے مل گیا اُس سے پیٹ کی آگ بجھالی یا اپنی کوئی بھی معاشرتی ضرورت پوری کرنا ہے معاشرے کی یاسوسائٹی کی اِس مجموعی عادت کو اِس محاورے میں پیش کیا گیا ہے جس میں ایک گہرا طنز موجودہے۔
(۷۷) آگے ڈالنا۔
اِس کے معنی سامنے رکھنا بھی ہے اوربیوہ کی مدد کرنا بھی ہے۔ ہندوؤں میں دُستور ہے کہ کسی بیوہ عورت کے گذارے کے خیال سے اُس کے عزیز رشتہ دار اُٹھاونی یا تیرہویں کے دن حسبِ مقدور کچھ روپیہ دیتے ہیں۔ اِس کے یہ معنی ہیں کہ ہماری رسمیں زندگی اوردُنیاوی معاملات سے بھی رشتہ رکھتی ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُن کے معنی اورمقصد پر نظر رکھی جائے۔
(۷۸) آگے کوکان ہونا۔
یہاں کانوں کے آگے یا پیچھے ہونے سے مُراد نہیں ہے بلکہ آئندہ کے لئے ذہن کے ہوشیاری ہونے سے مراد ہے کہ اب جوکچھ ہم نے سنا ہے دیکھا ہے اس سے ہم نتیجہ اخذ کریں ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم لوگ آئندہ کے لئے احتیاط اوراخذ نتائج کے عمل سے اکثرمحروم رہتے ہیں۔
(۷۹) آگے ہاتھ پیچھے پات۔
پات پیڑکے پتہ کوکہتے ہیں ایسا غریب آدمی جس کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے بھی کچھ نہ ہویہ محاورہ اُس کے لئے ہوتا ہے ہندوستان میں سادھوسنت اور خاص طورپر پر جین مت کو ماننے والے منی ننگے رہتے ہیں۔ جوغربت کے باعث نہیں ہوتا یونان میں بعض دیوتاؤں یا قدیم انسانوں کے پرائیوٹ حصّہ جسم کو انجیرکے پتے سے ڈھکتے تھے۔ وہ ایک فنکارانہ رویہ تھا غربت وہاں بھی شریک نہیں تھی مگرہمارے معاشرے میں غُربت واِفلاس کو بھی اس پس منظر میں خصوصیت سے شامل کیا گیاہے۔ غُربت پرہمارے یہاں بہت محاورے ہیں اُن میں ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ اُس کے گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہے یاننگی کیا نہائے کیا نچوڑے بھوکا ننگا فقیرجیسے محاورے ہمارے معاشرے کی غربت کوظاہرکرتی ہے۔
(۸۰) اُلٹا توا ہونا، بے حدکالا ہونا۔
ہندوستان میں سانولا رنگ توہوتا ہی تھا اُس کی تعریف بھی کی جاتی تھی۔ لیکن زیادہ کالے رنگ کوناپسند بھی کیا جاتا رہا ہے اسی لئے اُلٹا توا ہونا بہ حیثیت محاورے کے ہمارے ہاں رائج ہوا کہ وہ آدمی کیا ہے اُلٹا توا ہے۔ اس سے ہم یہ بھی اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ ُان لوگوں نے بطورمحاورہ رائج کیا جو جونسبتاً اچھے رنگ والے ہوتے تھے۔
|