|
.
اُلٹے لفظ اورمفہوم کے ساتھ بہت محاورے بنے ہیں اور ہمارے معاشرے کی ذہنی سطح کے مختلف رنگ اُس کے ذریعہ سامنے آتے ہیں مثلاً اُلٹی گنگا بہنانا، بات کوالٹ پلٹ کر دیکھنا، یا دینا۔ اُلٹی سیفی پڑھنا یعنی بددعا دینا ۔اُلٹے پاؤں پھرآنا فوری طورپر واپس لوٹ آنا ،الٹے ملک کا ہونا، بے حد بیوقوف ہونا ملک کا لفظ ہماری عام زبان میں بہ طورِعلاقہ استعمال ہوتا تھا ملک اس معنی میں نہیں آتا تھا جس معنی میں اب آتا ہے۔ قوم کا لفظ بھی اپنے معنی اورمفہوم کے اعتبار سے بہت سی تبدیلیوں سے گذرا ہے ایک وقت میں وہ قبیلے خاندان اورگروہ کے معنی میں آتا تھا اب اُس کے معنی ایک خاص سیاسی اورقانونی اسٹیٹ میں رہنے والے کے ہیں ۔ جسے آج ہم ہندوستانی قوم کہتے ہیں اور Nationنیشن کے معنی مراد لیتے ہیں۔
(۸۱) اُلٹی سانسیں آنا یا اُلٹے سانس آنا۔
اِس سے مراد ہے جان کنی کاعالم جب سانس اُکھڑجاتی ہے دہلی میں اُسے’’ گھنگروبجنا‘‘ کہتے ہیں کہ وہ خودایک محاورہ ہے۔
(۸۲) الش کرنا۔
بادشاہوں یا امیروں کے لئے الگ سے جواُن کا پسندیدہ کھانا ہوتا تھا وہ خاصہ کہلاتا تھا۔ اُس میں سب شریک نہیںہوتے تھے امیر یا بادشاہ اُس میں سے جب بطورِتحفہ کسی کوکچھ دیاجاتا تھا تووہ’’ الش‘‘کہلاتا تھایہ ترکی لفظ ہے اورغالباً مغل بادشاہوں کے ساتھ آیا ہے۔
(۸۳) الف حروفِ تہجی میں پہلا حرف ہے اوراِس اعتبار سے خاص معنی رکھتا ہے۔ ابتداء کو ظاہر کرتاہے خدا کے نام یعنی ’’اللہ کا پہلا حرف ہے’’ الف اللہ‘‘ کامحاورہ ہے اوراس کے معنی سب سے الگ اورجدا ۔الفِ کھینچنا گَداگری کرنے کوکہتے ہیں۔’’ الف‘‘ کے ساتھ عریاں ہونے کا تصور بھی آتاہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ ننگا الف تھا ۔ ’’پُرش‘‘ ہندوفلسفہ میں خدا کوبھی کہتے ہیں ’’الکھ پرش‘‘ خُدا کی ذات بھی ہے اورایسے فقیر کوبھی کہتے ہیں جو دوسروں سے آزاد اورالگ تھلگ رہتا ہوہندوکلچرمیں’’ الکھ‘‘ کالفظ بہت اہم اورمقدّس ہے۔ اسی لئے ایک مقدس ندی کانام’’ الکھ نندا ہے‘‘’’ الکھ داس‘‘ نام رکھا جاتا ہے ’’الکھ وجگانا‘‘ یعنی جوش عقیدت پیدا کرنا۔’’ آرپی اتارنا‘‘ بھجن پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اِس کے علاوہ کچھ مانگنے کو بھی درویشوں کی جگہ پر’’ الکھ جگانا‘‘ کہتے ہیں۔
(۸۴) الگ پڑنا، الگ تھلک ہوجانا یا الگ تھلگ کردیاجانا۔
بہت سادہ سا محاورہ ہے جواب بھی استعمال ہوتا ہے کہ میں الگ پڑگیا ۔یہ بھی ممکن ہے اورہوتا رہا ہے کہ کوئی گروپ یاگروہ کسی ایک آدمی کے چلنے نہ دے اوریہ بھی ہمارا ایک سماجی رویہ ہے کہ آدمی اپنی جان بچانے کے لئے یہ کہے کہ میں اکیلا پڑگیا تاکہ وہ الزام سے بچ جائے۔
(۸۵) اللہ اللہ کرنا۔
مسلمانوں میں ایک معاشرتی رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی ہربات کوخُدا سے نسبت دیتے ہیں ایسا صوفیانہ طرزِ فکر کے تحت بھی ہوتا ہے تہذیبی رسوم وآداب کے تحت بھی اوراس میں معاشرے کی یہ ذہنی روش بھی شامل رہتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی انفرادی یا اجتماعی بُرائی چُھپانے کے لئے معاملہ کو مذہب کی چھترچھایا میں لے آنا چاہتے ہیں مثلاًیہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں ہوتا یہ کہنے والا اِس بات کو بھول جاتا ہے کہ ُاس کی ناکامی میں اُس کی غلطی کو بھی دخل ہوسکتا ہے اور دوسروں کی مکاریوں کوبھی ہم ہر بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے اسی طرح کی باتوں کا سہارا لیتے ہیںچونکہ مذہب ہماری نفسیات میں داخل ہوگیا ہے اسی وجہ سے اِس بات کا رُخ بات بات میں مذہب کی طرف پھرجاتا ہے۔
|