|
.
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تہذیبی اظہار میں یہ رویہ کہیں کہیں بہت خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اللہ نگہبان، اللہ حافظ، اللہ اللہ کرنا یا ہونا اس کی اللہ اللہ ہورہی ہے یعنی آخری وقت ہے اورخُدا یادآرہا ہے۔ دمِ واپس اب سرِراہ ہے عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے اظہارِتعجب کے لئے بھی اللہ اللہ کہا جاتاہے جیسے اللہ اللہ یہ نوبت آگئی۔ یاتم کوکسی بات سے کیا واسطہ تم تواللہ اللہ کرو۔
(۸۶) اللہ آمین سے بچہ پالنا، یا اللہ آمین کا بچہ ہونا۔
جوبچے بہت لاڈلے ہوتے ہیںاورجن کے ساتھ خاندان یاماں باپ کی بہت تمنا ئیں وابستہ ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے۔ (۸۷) اللہ ماری یا اللہ مارا یا خُدا ماری۔ یہ محاورہ اُس موقع پر بولتے ہیں جہاں عورتیں نگوڑا اورمواوغیرہ بولتی ہیں یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کچھ محاورے ہمارے یہاں صرف عورتوں سے متعلق ہیں مرداِس کو استعمال نہیںکرتے۔
(۸۸) اللہ والا،خُدا رسیدہ، بہت نیک۔
یہ محاورہ دہلی میں فقیر کے لئے استعمال ہوتا ہے چاہے اِسے عورت کے ساتھ وابستہ کیاجائے یا مرد کے لئے اللہ نورنام بھی ہوتا ہے لیکن جب اللہ کانورکہتے ہیں تواس سے مرادنورانی صورت ہوتی ہے ڈاڑھی کو بھی اللہ کانور کہاجاتا ہے ۔
(۸۹) اللہ کے گھرسے پھرنا، شدید بیماری سے واپس آنا۔
جس کایہ مطلب بھی ہے کہ موت خدا سے قُربت کا ذریعہ ہے اِسی لئے یہ محاورہ بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اللہ کوپیارا ہوگیا۔
(۹۰) الہٰی مہرہونا۔
جس طرح سے کوئی مُہری دستاویز مصدِقہ ہوتی ہے اسی لئے جب یہ کہا جائے وہ الٰہی مہر ہے تواِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رقم وہ بات وہ وعدہ نامہ ہر طرح مصدِقہ ہے۔ تصدیق شدہ ہے اور اُس سے انکار نہیں ہوسکتا۔
(۹۱) اللہ کا جی (جیو۔جان) ہونا۔
جوآدمی بالکل سُوجھ بُوجھ سے بالکل محروم ہوتا ہے بس ایک معصوم جانور جیسا اُس کا ذہن اور اُسی کے مطابق اس کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کو اللہ کی جی کہتے ہیں یہاں اللہ کا جیو کہنا ایک خاص تہذیبی معنی بھی رکھتا ہے وہ یہ کہ اللہ توہرانسان کومعصوم اوربھولا بھالا پیدا کرتا ہے یہ توآدمی کو اُس کا ماحول اوراُس کی اپنائی ہوئی زندگی کی قدر یں ہوتی ہیں جواسے مکاری پر آماد ہ کرتی ہیں اِس لئے کہ جانداروں یا جانور وں میں تجربہ توان کے ذہن کوبدلتا ہے ورنہ بیشتر وہ معصوم ہوتے ہیں اوراپنی فطرت پر قائم ہوتے ہیں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں ہربات کو کسی نہ کسی پہلو سے خدائی ہی سے نسبت دی جاتی ہے۔
(۹۲) اِلَّلذی نہ اُلَّلذِی نہ اِدھر کا نہ اُدھر ’’الی اللذین ولا الی اللذین‘‘
دین کا نہ دنیا کا عربی زبان کے فقرہ کو اپنے محاورے میں ڈھال لینا اور اُس میں
اُردوپن پیدا کردینا ہمارے زبان دانوں کا بڑا کارنامہ ہے اوراِس سے پتہ چلتا ہے کہ
اگرہم نے دوسری زبانوں اورادبیات کے نمونوں سے کچھ حاصل کیا ہے تواُسے اپنے طورپر
اوراپنے ذہن کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔
|