|
.
یہ اعتراض کہ اُردو میںتوبہت کچھ عربی فارسی یا پھر تُرکی یا تاتاری زبانوں سے آیا ہے غلط ہے ہم نے ان کے ذریعہ اپنی زبان کوزیادہ Enrichکیا ہے مختلف اعتبارات سے ترقی دی ہے اِس کو دیا نتد اری اورایک ارتقاء پذیر زبان کے تاریخی سفر سے وابستہ کرنا چاہیے محض کسی سیاسی حکمتِ عملی سے نہیں جوعلمی دیانتداری کے خلاف ہے۔
(۹۳) آپ سے خُوب خُداکانام۔
یعنی اپنے سے اچھا توصرف خدا کانام ہوتا ہے۔ اس سے سماج کی اِس نفسیات کاپتہ چلتا ہے کہ ہر آدمی خود مرکزیت کا شکار ہوتا ہے کہ صرف میں سب کچھ ہوں اورمجھ سے بہترکوئی نہیں بس خدا کانام ہے اگراس اعتبار سے محاوروں پر غورکیا جائے توسماج کہ ذہن وزندگی سے کتنے پردے اٹھتے ہیں جن کے اندر ہم جھانک نہیں پاتے۔
(۹۴) آیا دیکھنا۔
معنی اپنے اوپر نظرکرنا۔ یہ اِس اعتبار سے بڑی معنی خیزبات ہے کہ انسان دوسروں کے ایک ایک عیب کو ڈھونڈتا ہے اوراپنی طرف نظرنہیں کرتا کہ وہ کیا کررہا ہے کیوں کررہا ہے اورخود اُس کی اپنی ذات کی اچھائیاںبُرائیںا کیاہیں یہی محاورہ اس شکل میں بھی ہے آیا ہی آیا نظرآنا یعنی اسے اپنا وجود ہی نظرآتا ہے اوراس سے باہر کچھ نظرنہیں آتا یہاں بھی مراد خودغرضی ہے خودشناسی نہیں۔ خودشناسی میں تو اپنے آپ کو اِمکانی طورپر صحیح پیمانوں سے دیکھنا اورپرکھنا شامل ہے ۔ صرف خودغرضی یا آپ اپنی پرستش کرنے کے جذبہ سے خود کچھ دیکھنا نہیں آدمی جب دوسرے کی نظر سے خودکودیکھتا ہے تواس نتیجہ پر بھی پہنچتا ہے اوریہ بھی محاورہ ہے’’ آیا ہے براہے‘‘ یعنی ہم ہی بُرے ہیں اورتوسب اچھے ہیں۔
(۹۵) اپنا خون بہانا۔
اِس سے مراد ہے اپنے سے قریب تر رشتہ داری (Blood Relation Ship)ہونا۔ پہلے زمانہ میں اِس کی بڑی اہمیت تھی اوراپنائیت کے ساتھ بہت سارے رشتہ جڑے ہوئے ہیں اورمحاورے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں خون کارشتہ صرف محبت کا رشتہ نہیںہوتا مگر محاورہ میں اسے ہمیشہ کے لئے جوڑدیا اوراس کے خلاف ہماری زندگی میں جو ہزار درہزار واقعات اورثبوت موجود ہیں۔اورتلخ تجربات اس کی شہادت دے رہے ہیںلیکن ابھی تک وہ بات زبان پر آئی ہے کہ خون کارشتہ اپنائیت کا رشتہ اسی کے ساتھ یہ محاورات ذہن میں رکھے جاسکتے ہیں کہ’’ اپنا مارے گا توچھاؤں میں ڈالے گا‘‘ معلوم ہوا کہ اپنوں سے نیکیوں کی توقع رکھی جاتی ہے اسی کے ساتھ یہ محاورہ بھی ہے کہ’’ شکایت اپنوں ہی سے ہوتی ہے‘‘ یہ اپنے طورپر کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن اسی کے ساتھ جب ہم یہ محاورہ دیکھتے ہیں کہ اپنوں کا کیاشکریہ سوال یہ ہے کہ اگراپنوں کاشکریہ ادا نہیں کیا جاتا تواُن سے شکایت کیوں کی جاتی ہے یہ سماج کے غلط رویوں کی طرف اشارہ ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم نے محاوروں کواپنے معاشرتی مطالعہ کے لئے اوراُن سے اخذنتائج کی غرض سے کبھی اعتناء نہیںکیا۔ توجہ نہیں دی۔اوران سے نتیجہ اخذ نہیںکئے۔
(۹۶) آپادھاپی پڑنا۔
یعنی وہ صورت پیدا ہوجانا کہ چھینا جھپٹی ایک عام رویہ بن جائے آپا سنبھالنا بھی ایک محاورہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ٹھیک ٹھاک رکھو۔اس کے بغیردوسرے تمہیں یاکسی کو تحسین کی نظرسے نہیں دیکھیںگے۔
(۹۷) آپے سے باہرہونا۔
یہ بے حداہم محاورہ ہے ۔اِس کے معنی ہیں اپنی حدود اورموقع کی نزاکت کونہ سمجھنا
اورغصہ وغم پر قابو نہ پانا اوربے محابااظہار کردینا اِس میں بُرا بھلا کہنا بھی
شامل ہے اور دوسرے بُرے سلوک بھی ہیں نقصان پہنچانا توڑپھوڑکرنا مارپیٹ کرنا عذابوں
میں شامل کرنا سب ہی شامل ہے۔
|