|
.
اس اعتبار سے یہ نہایت اہم محاورہ ہے اوراخذ نتائج کی طرف ذہن کو مائل کرتا ہے۔اُردو میں آپ سے متعلق بہت سے دلچسپ شعر بھی ہیں جیسے آپ ہیں آپ، آپ سب کچھ ہیں اور ہیں اور، اورکچھ بھی نہیں
(۹۸) اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔
ڈفلی چھوٹے سے ڈف کوکہتے ہیں اس کو بجایا جاتا ہے اوردوسرے سازوں کے ساتھ اس کی لے ملائی جاتی ہے۔ اِس میں کبھی کسی راگ کو بھی دخل ہوسکتا ہے بہرحال کسی بھی موسیقی سے نسبت رکھنے والی پیش کش کے لئے یہ ضروری ہے کہ جولوگ اُس میںشامل ہوں وہ ایک دوسرے سے آواز میں آوازملائیں جب سماج میں افراتفری پھیل جاتی ہے اور کوئی کسی کا ساتھ دینا نہیں چاہتا اپنی اپنی اپنی کہتا ہے اوراپنی سوچ کے آگے کسی کو اہمیت نہیں دیتا توسماج بکھرجاتا ہے اوراُس کی مجموعی کوشش جواچھے نتیجے پیدا کرسکتی ہے ان سے محروم رہ جاتا ہے اسی وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں اپنی اپنی ڈفلی اوراپنا اپنا راگ ہے۔ کسی کو کسی دوسرے کی کوئی پرواہ نہیں ہرشخص اپنی مرضی کا مالک ہے اوراپنی رائے کے آگے کسی کی بات کوکوئی اہمیت نہیں دیتا۔ یہ سماج کا کتنا بڑا مسئلہ ہے جس سے ہم گزرتے رہے ہیں اورگذررہے ہیں۔
(۹۹)اُلٹی پٹی پڑھانا۔
ایک قدیم محاورہ ہے جس کا اندازہ پٹی پڑھانے سے ہوتا ہے پٹی پیمانہ جیسی ایک لکڑی ہوتی ہے جس پرپہلے زمانہ میں تحریرلکھی جاتی تھی اِس طرح کی پٹیاں جنوبی ہندوستان کے مندروں میں محفوظ تھیں اوراب میوزیم اور آرکائیوز میں رکھی ہوئی ہیں پہلے یہ کتابوں اوررسالوں کی طرح پڑھانے کے کام آتی ہونگیں اسی سے یہ محاورہ بناکہ ُاس نے یہ پٹی پڑھادی اُس کے ذریعہ سکھایا اوراُس کا اپنا مطلب سمجھایا اب ایک ناواقف آدمی کو غلط سلط بھی سمجھایا بجھایا جاسکتا ہے ۔اِسی کو الٹی پٹی پڑھانا کہتے ہیں جو غلط ارادے رکھنے والے لوگ کیا کرتے ہیں۔ ’’الٹی سیدھی باتیں کرنا‘‘ ایک الگ محاورہ ہے جس میں یہ پہلو چھپاہے کہ وہ بات بیشک کرتے ہیں مگرسیدھی سچی نہیں الٹی سلٹی جوبات اُن کی سمجھ میں آتی ہے وہ کرتے ہیں نہ اُ ن کی عقل وتجربہ سے اِن باتوں کا کوئی تعلق ہوتا ہے یہ گویا باتیں کرنیوالوں کے رویہ پر تبصرہ ہے ۔
(۱۰۰) اُلٹی گنگاپہاڑکو ،یااُلٹی گنگا بہانہ۔
بے تکی غلط اوراُلٹی بات کے لئے کہا جاتا ہے۔’’ گنگا ‘‘پہاڑہی سے اُترکرآتی ہے اورمیدانوں میں رہتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اسے پیچھے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے ایسے موقعوں پرجب کچھ لوگ انہونی بات کرتے ہیں تویہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ یہ توگنگاکے بہاؤ کو اُلٹ کر پھرپہاڑ کی طرف کردینا چاہتے ہیں جوممکن نہیں یہ بھی سماج کا رویہ ہے کہ وہ جھوٹ کوسچ اورسچ کوجُھوٹ ثابت کرنا چاہتا ہے اوراس میں جوبے تکاپن ہے کہے یا کرنے والوں کو اس کا خیال بھی نہیں رہتا یہ ہماری روزمرہ کی زندگی ذہنی حالت اور زمانہ کی روش پر ایک گہرہ طنز ہے۔
(۱۰۱) اللہ اکبر ،اللہ اکبر کرنا یا اللہ اللہ اللہ اللہ کرویعنی اللہ کانام لو۔
مسلمان سوسائٹی ہو یا ہندوسوسائٹی یا پھرسکھ سوسائٹی اُن پر مذہب کا روایتی اثر زیادہ ہے۔ یہ بات بات میں مذہب کوسامنے رکھتے ہیں اورجوبات کرتے ہیں وہ مذہب کے نام پرکرتے ہیں اِس کا ان کے عقیدے سے بھی رشتہ ہے اورتہذیبی روایت سے بھی وہ لوگ جومذہب کو زیادہ مانتے بھی نہیں وہ بھی یہ الفاظ یہ کلمات اپنے اظہار ی سلیقے کے مطابق زیادہ مانتے ہیں مذہب کا روایتی اثر یہاں تک ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے حکم کے بغیرپتہ بھی نہیں ہلتا یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے مگرایسی صورت میں بداعمالیاں کیسے ہورہی ہیں اوراس کی ذمہ داری کس پر ہے ۔ اِس سے بہرحال یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معا شرہ پر مذہب کا جوروایتی اثرہے۔ اُس کا اظہار اس کی گفتگو، جملوں کی ساخت اورخاص طرح کے مذہبی کلمات سے بھی ہوتا ہے۔۔
|