|
.
(۱۰۵) آنکھ اٹکنا، آنکھ اٹھاکر نہ دیکھنا ، آنکھ اٹھاکر دیکھنا، آنکھ ُاٹھانا، آنکھ آنا، آنکھ اونچی نہ کرنا ، آنکھ بچانا،آنکھ بدلنا، آنکھ بند ہونا، آنکھ بھرکر دیکھنا،آنکھ بھوں ٹیڑھی کرنا، آنکھ پڑنا،نظرادھرگئی، آنکھیں پھاڑپھاڑکر دیکھنا ، آنکھیں پھیرلینا، آنکھوں کی ٹھنڈک ، آنکھوں کا سرمہ۔آنکھیں ٹھنڈی کرنا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھیں چُرانا، آنکھیں چھپانا، آنکھ سے آنکھ ملانا، آنکھیں لڑانا،( یا آنکھ لڑنا) آنکھیں مٹکاناوغیرہ آنکھوں میں رات کاٹنا، آنکھیں پتھرانا۔
اِن محاورات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے مختلف رویوں کو جوسماجی اخلاقیات سے گہرا واسطہ رکھتے ہیں ہماری سوچ سے کیا تعلق رہا ہے۔ اوراُس پر ہمارا تبصرہ کرنا کیاکیا انداز اختیار کرتا ہے مثلاً آنکھیں پھیرلینا مطلب نکل جانے کے بعد بے مروتی اختیار کرنا۔آنکھ بدلنا رویہ میں تبدیلی کرنا۔آنکھ بھر کر دیکھنا بھی ایک عام رویہ کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھے کہ اس میں احترام کا پہلو باقی نہ رہے آنکھیں چارہونا ایک دوسرے کے دیکھنے کو کہتے ہیں مگر چار آنکھیں ہونا غیرضروری خواہشات نہ مناسب تمناؤں اور توقعات کو دل سے لگانے اوراپنی سماجی زندگی میں داخل کرنے والی عورتوں کے لئے اکثرکہا جاتا ہے کہ اس کی چار آنکھیں ہوگئیں۔ آنکھ سے آنکھ ملانا برابری کے رشتہ کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنا ہے اورآنکھ نہ ملاسکنا فرق وامتیاز یا نفسیاتی طورپر شرمندہ ہونا کہ ُاس کے بعد سامنے جرأت کی ہمت نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ غیرت شخص ہو۔ آنکھیں چرانا بھی سماجی عمل ہے اوروہی کہ نفسیاتی طورپر آدمی کسی سے آنکھ ملاکر گفتگو نہ کرسکے اوربات کو اِدھر اُدھرٹالنا چاہے اوربات کو اِدھر اُدھرٹالنا چاہیے۔ آنکھ لڑنا یا آنکھیں لڑانا عجیب وغریب انداز سے ہماری نفسیات پر روشنی ڈالتا ہے ، لڑنا یا لڑانا کوئی اچھی ذہنی کیفیت نہیں ہے۔ لیکن قوم کشتی سے لیکر ہاتھیوں کی لڑائی مرغیوں کی پالی اورتتربٹیرکی باہمی جنگ دیکھ کر جولوگ لطف لیتے ہوں اُن کے ہاں آنکھیں لڑانا بھی محبت کا اشارہ ہوجائے گا۔ آنکھ پھڑکنا سماج کی توہم پرستانہ فکر فرمائی کی ایک نشانی ہے کہ آنکھ پھڑک رہی ہے توکوئی آفت آنیوالی ہے اس طرح کی باتیں ہمارے معاشرے میں بہت رائج رہی ہیں ۔ مثلا بلی نے راستہ کاٹ دیا ، تواب سفر منحوس ہوگیا۔ سفرمیں خطرات توتھے ہی اسی لئے سفر پر جانیوالے کے بازو پر امام ضیامن باندھا جاتا تھا آئینہ کے منہ پرپانی ڈالا جاتا تھا۔ اس سے اُس دورکی تواہم پرستی کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ آنکھ پھوڑٹڈاہونا دہلی کا خاص محاورہ ہے دوسری جگہوں پر استعمال نہیں ہوتا اوراچانک جوشخص تکلیف پہنچنے یا پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے اس کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اپنی آنکھ کا شہتیرنظرنہ آنا اوردوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھنا بھی ہمارے سماجی رویہ کا ایک پہلو ہے جو افسوس ناک حدتک سماجی ذہنیت کی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آنکھیں ٹھنڈی کرنا بھی بہت دلچسپ اورمعنی خیز محاورہ ہے جب کسی بات کو دیکھ کرہمارا جی خوش ہوتا ہے اورہماری تسکین کا باعث بنتا ہے اسی کو آنکھیں ٹھنڈا ہونا کہتے ہیں۔ اس کے اریب قریب کا محاورہ کلیجہ ٹھنڈا ہونا ہے۔میری آنکھیں ٹھنڈی اوردل خوش کہا جاتا ہے اوراس کے مقابلہ میں جوباتیں تکلیف کا باعث ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں میں کانٹے کی طرح کٹھکتی ہیں۔ ’’آنکھوں کی سوئیاں نکالنا‘‘ بھی کسی محنت طلب اور دقت والے کام کا انجام پاجانا ہے اسی طرح آنکھوںمیں سلائی پھیرنا یاسلائی پھرنا اندھا کئے جانے کے عمل کوکہتے ہیں کہ مغلوں میں اِس کا دستور تھا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ دار وں کو جنہیں اپاہج بنادینا مقصود ہوتا تھا ان کی آنکھوں میں سلائی پھروادیتے تھے مغلوں کے دور میں ایسے واقعات بہت ہوئے ہیں میرؔکا یہ شعر اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
|