|
.
شہاں کہ کُحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی اُنہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں ہم میرؔکے زمانہ سے پہلے اورمیر ؔ کے زمانہ میں اس طرح کے واقعات کو تاریخ کا حصہ بنتے دیکھتے ہیں اسی کی طرف یہ محاورہ اورمیرؔ کا شعر اشارہ کررہا ہے یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض محاورے تاریخی واقعات سے بھی رشتہ رکھتے ہیں مثلاً ’’احسان لیجئے جہاں کا مگر احسان نہ لیجئے۔شاہجہاں کا۔‘‘ یہ کہاوت ہے اورکسی وجہ سے شاہ جہا ںکے زمانہ میں رائج ہوئی ہے اسی طرح ’’نادر گردی مرہٹہ گردی‘‘ اورجاٹ گردی بھی محاورہ کے معنی میں آتی ہے بری صورت حال کوکہتے ہیں مگران کا تعلق تاریخ سے ہے جب انتظام باقی نہ رہے مگربہرحال اس صورتِ کا تعلق تاریخ کے حقائق سے توہے۔
(۱۰۶) انگاروں پرلوٹنا، انگارے بچھانا، انگاربھرنا، انگار ے مارنا۔
انگارہ آگ ہی کی ایک صورت ہے اورتکلیف دہ صورت ہے وہ ہاتھوںپہ انگارے رکھنا ہویا انگاروں پرچلنا شدید عذاب کی ایک صورت ہے موت کے بعد قبر کے انگاروں سے بھرنے کے معنی بھی یہی ہیں کوئی اپنی قبر کوبھرے یا دوسرے کی بات ایک ہی ہے مسلمانوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ جوعذاب آدمی کو دیا جاتا ہے وہ قبرمیں دفن کرنے کے بعدہی شروع ہوجاتا ہے اورچونکہ مسلمانوں میںعذاب کا تعلق آگ سے ہے دوزخ سے ہے اس لئے قبرمیں بھی انگار روں کا ہونا شدید عذاب سے گذارنا ہے انگاروں پر لوٹنے کے معنی بھی سخت بے آرامی اور ذہنی کوفت کے ساتھ وقت گذارنا ہے۔ سماج کا رویہ بھی کبھی کبھی ایک حساس یامجبور آدمی کے حق میں اتنا بُرا ہوتا ہے کہ آدمی کچھ کرنہیں پاتا اوربے انتہا ذہنی کوفت اورجسمانی اذیتوں کے ساتھ وقت گذارتا ہے ۔
(۱۰۷) اُوپری پرائے ، بھوت پریت۔
یہ محاورہ بھی اس معنی میں اہم ہے کہ سماجی تواہم پرستی اوران دیکھی باتوں سے خوف کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم یہ کہتے ہیں ہوئے دیکھتے ہیں کہ وہ اوپری پرائے کے بہت قائل ہیںاوپری پرائے کاڈررہتا ہے۔
(۱۰۸)اوکھلی میں سردینا۔
اوکھلی لکڑی کے اس حصّہ کوکہتے تھے جس میں کسی شئے کو ڈال کرمُسل سے کوٹا جاتاہے اوکھلی ایک کونڈی کی طرح ہوتی ہے اب سے کچھ دنوں پہلے تک گاؤں اور قصبوں کے گھروں میں اوکھلی بنی ہوتی تھی اورمُسل رکھے رہتے تھے اوردھان اس میں کوٹے جاتے تھے جس میں چاول الگ ہوجاتے تھے۔ بُھوسی الگ ہوجاتی تھی اب ایسی کسی جگہ کے لئے یہ محاورہ استعمال ہونے لگایا یہ کہاوت کام آنے لگی جہاں تکلیف کی باتیں ہوں اور آدمی اپنے سماجی رشتوں اورضرورتوں کے پیشِ نظر اُن کوبرداشت کرلیتا ہے اوریہ کہتا نظرآتا ہے کہ جب اوکھلی میں سردیاہے تومسلوں سے کیا ڈرنا ۔
(۱۰۹) اونچی ناک کرنا یاہونا، نیچی ناک کرنا یاہونا۔
یہ محاورہ سماجی امتیاز اوربے امتیاز ی کے تصوّرکے گرد گھومتاہے ناک عزت وآبروکی علامت ہے اسی لئے ناک کٹنا بے عزت ہونے کے معنی میں آتا ہے آدمی سراونچا کرے چلتا ہے تواس کی ناک بھی اونچی ہوتی ہے اگرسرنیچا کرکے چلتا ہے توناک بھی نیچی ہوتی ہے اس سے مراد فخر وناز کا اظہار کرنا ہے یا عاجزی اورانکسار کو پیش کرنا ہے سراورناک کے محاورے انسان کی یا ہماری زبان کی سماجی نفسیات کوپیش کرتے ہیں اوراُس میں یہ اونچ نیچ ایک اعتبار ی یا اختیاری صورت ہے۔۔
|