|
.
(۳)بارہ بانی کا ہوجانا ۔
ہرطرح سے صحت مندہوجانا یہ بھی دیہات میں اکثربولا جاتا ہے صحت مندی کے لئے بھی اورکھیت کی اچھی پیداوارکے لئے بھی اب رفتہ رفتہ محاورات غائب ہورہے ہیں یہ محاورات بھی دیہات اورقصبات تک محدود ہوگئے ہیں۔ مثلاً دیہاتی یہ کہتے ہیں کہ ذرا سی محنت کرلو وقت پرپانی دو اور کھادڈالو توتمہارے کھیت بارہ بانی کے ہوجائیں گے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ شہر کا معاشرہ جب ’’کھیت کیا ر‘‘ کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا تواُس سے نسبت رکھنے والے محاورے بھی اس کی زبا ن میں داخل نہیں ہیںبالکل اسی طرح جیسے بہت سے شہری محاورے جوپڑھے لکھے اورملازمت پیشہ طبقہ میں رائج ہیں وہ ان لوگوں کی زبان میں شامل نہیں جوکھیتی باڑی اورمحنت مزدوری سے تعلق رکھتے ہیں اب جیسے (دھیلی) پاولا کمانا یا پکڑنا محنت مزدوری کرنیوالوں کا محاورہ ہے۔ جو لوگ باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں ان کا محاورہ یہ نہیں ہوسکتا روپیہ کے مقابلہ میں (دھیلی) اور’’دھیلی‘‘ میں ’’پاولا‘‘ آٹھ آنے چار آنے کو کہتے ہیں یہ محاورہ اس وقت کی یاددلاتا ہے جب ایک آدمی کی مزدوری آٹھ آنے روز ہوتی تھی اوروہ بھی کاریگر کی عام مزدور کو چارآنے ملتے تھے اس طرح سے محاورات میں نہ صرف یہ ہے کہ طبقاتی ذہن کی پرچھائیاں ملتی ہیں بلکہ ایک وقت میں ایک خاص طبقہ کی جوآمدنی ہوتی تھی اس کی محنت کا جومعاوضہ ملتا تھا محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا تھا۔ آج بھی ہمارے یہاں روٹی، روزی، روزگارسے لگاہواکہنے والے موجود ہیں اوریہ بھی کہتے ہیں کہ اس زبان اس فن یا اس کام کا تعلق روٹی روزی سے جوڑدیا جائے اِس سے ان کی مُراد روپیہ پیسہ یا آمدنی کے حصول کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ بتارہے ہیں کہِاس کا تعلق اس وقت کی مزدوری سے ہے جب محنت کا معاوضہ پیسوں میں نہیں روٹیوں میں ادا کیا جاتا تھا اورروز کی روٹی کہا جاتا تھا روزی دراصل روز ینے کو کہتے تھے یعنی روزانہ جوکچھ ملازم یا مزدور کو ادا کیا جاتا تھا وہ اس کی روزی ہوتی تھی چار آنے روزدو آنے روز ایسا بھی ہوتا تھا کہ آٹا پیسنے والی کو پیسوں کے بجائے مزدوری میں آٹا ہی دیا جاتا تھا اوربازار سے جب چیز منگائی جاتی تھی توروٹی بنوالے، جو، باجرا، چنے اورگیہوں کچھ بھی دوکان پر بھیج دیا جاتا تھا اوراُس کے بدلہ میں روزمرّہ کے استعمال کی چیزآجاتی تھی۔ ’’فقیر مٹھی دومٹھی آٹا مانگتا تھا‘‘ جوایک محاورہ ہے اور ایسا ہوتا تھا کہ صبح کے وقت جو عورتیں عام طور پر گھروں میں چکی پیستی تھیں اپنے گھر کے آٹے میں سے ایک مٹھی آٹا اُسے دے دیتی تھیں مٹھی بھر آٹا، مٹھی بھراناج، یامٹھی بھرچنے ،یہاں تک کہ مٹھی بھر دانے خیرات یا مزدور ی کے طورپر دےئے جاتے تھے۔ ہمارا معاشرہ بدل گیا لیکن اس دوریا کسی بھی دوریا کسی بھی‘ معاشرے سے تعلق رکھنے والے محاورے ہم عہد یا معاصر سچائیوں کی نمائندگی اب بھی کرتے ہیں۔
(۴) بازار کے بھاؤ پیٹنا۔
یہ دیہات وقصبات میںبولا اجانیوالا محاورہ ہے مغربی یوپی میں یہ پیٹنا بولا جاتا ہے اورلغت المحاورات میں ’’پ‘‘ کے زبرکے ساتھ پیٹنا بھی ہے۔ لیکن بھاؤکے ساتھ ’’پٹنا‘‘ عام طورپر نہیں آتا۔ بازار سے متعلق اردو میں بہت محاورہ ہیں بازار لگنا بازار میں کھڑے کھڑے بیچ دیتابازاری میں کھڑے ہونا،گرم بازاری ہونا یا بازار سرد ہونا، اتوار کا بازار، پیر کا بازار، منگل کابازار، ہفتہ کابازار عام طورسے اس خاص بازار کوکہتے ہیںجوکسی خاص دن لگتا ہے اسی سے روزے بازار کا محاورہ نکلا ہے ۔ بازار کارنگ بھی ہمارے محاورات میںسے ہے اوربازارکی چیز بھی غالب ؔکا شعر یادآرہا ہے۔
اوربازارسے لے آئے اگر ٹوٹ گیا جام جم سے تو مِرا جام سِفالّ اچھا ہے
|