|
.
کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اورملتا اسے ہے کہ جسے ضرورت نہیں ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ بھرے کو بھرا جاتا ہے ہم اکثررشتہ داروں کے لبوں پر شکایت دیکھتے ہیں کہ وہاں توبھرے کو بھرا جاتا ہے۔یہ سماجی شکایت ہے یہا ںتک کہ یہ شکایت خدا سے بھی ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں نکمّہ پن بھی زیادہ تھا اورنہ انصافی بھی اسی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے پاس ہوتا تھا اورکچھ لوگوں کے پاس بالکل نہیںہوتا تھا۔ بعض حالتوں میں وہ اِس نہ ہوت کے خود بھی ذمہ دارہوتے تھے۔ لیکن سمجھتے یہ تھے کہ یہ سب توہماری تقدیر کی بُرائی ہے ہمارا کوئی قصور نہیں اوراپنے رشتہ داروں پر اپنا حق تصور کرتے تھے پھر شکوہ شکایت کرتے تھے۔
(۳۴) بہشت کاجانور، بہشت کا میوہ، بہشت کی قمری ، بہشت کی ہوا۔
بہشت مسلمانوں میں اوراس سے پیشترعیسائیوں اوریہودیوں میں موت کے بعد کی زندگی کا ایک آئیڈیل ہے کہ وہاں راحتیں ہیں اس میں محل ہیںبہتی ہوئی نہریں پھل دار درخت ہیں اور چہکتے ہوئے پرندے ہیں ہمارے ہاں سکون وراحت آرام کایہی تصوربھی ہے جو صحرا نشیں قوموں کا ہوتا ہے اس سے بہت سے محاورے ہمارے ہاں جیسے بہشت کی قمری حُور جنت کوثر وتسنیم ، شجر طوبہ ، شجرِ ممنوعہ، آدم وحوا کا بہشت میں قیام یہ سب اسی تصورکا نتیجہ ہے جس کا اثرمسلمان تہذیب پر بہت گہرا ہے۔ اس کا اثر عیسائی تہذیب پر بھی ہے مگر اتنا نہیں فردوس گم گشتہ کی بات وہاں پر زبانوں پر آتی ہے انگریزی کے مشہو رشاعرملٹن کی نظم پیراڈائس لوسٹاور Paradisevaigaincdپیرا ڈائس ویگینڈنظمیں اسی کی طرف اشارہ کرنے والی شعر ی تخلیقات ہیں۔
(۳۵) بیٹی کاباپ۔
ہمارے یہاں بیٹی ہونے پرخوشی کا اظہارنہیں کیاجاتااس کی بہت سی وجوہات ہیں اُن میں ایک بڑی وجہ بیٹی کے ساتھ اس کی سسرال والوں کا رویہ ہے جو ایک بیٹی والے باپ کے لئے بے حد تکلیف کی بات ہوتی ہے۔ ہمارا سماج کمزور کودباتا ہے چاہے اُس کی کمزوری اخلاقی ہو یا رشتوں کی نزاکت کے باعث ہو یا مالی اعتبار سے ہو۔ یا بے سہارا ہونے کے لحاظ سے یہاں تک کہ اگراس کے گھرمیں بیٹی ہے تویہ بھی کمزوری ہے۔ اوراس کوبھی موقع بہ موقع دامادا اس کے گھروالے برابر Exploitکرتے رہیں گے ناجائز دباؤ ڈالتے رہیں گے۔
(۳۶) بے چراغ کرنا ، بے چراغ ہونا۔
چراغ خوشی کی علامت ہے اس لئے کہ وہ اندھیروں کو دورکرتا ہے۔ اورروشنیوں کوپیدا کرتا ہے۔ یہ بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لئے بیٹے کو اندھیرے گھرکا چراع کہتے ہیں۔ دعاء دی جاتی ہے۔ چراغ روشن مراد حاصل اوربے چراغ ہوجانا اس کے مقابلہ میں محروم ہوجانا ،بے حد نقصان کی حالت میں ہونا ویران ہوجانا ،گھرکے گھربے چراغ ہیں شہر کا شہر بے چراغ ہے۔ اردو کا ایک شعرہے۔ روشن ہے اس طرح دلِ ویراں میں داغ ایک اُجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک
(۳۷) بیس بِسولے۔
ہمارے معاشرے میں غیرشہری یا دیہاتی طبقہ بیس تک ہی گنتی جانتا تھا اوردوبیسی یعنی چالیس تین بیسی یعنی ساٹھ اسی نسبت سے وہ وہ کھیت کو بھی بسوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اسی لئے بیس بِسوے کہتا تھا اوراُس سے مُراد اس کا ایک حصہ ہوتا تھا ۔ یہ معاشرے کے ایک خاص دور کا پیمانہ ہے۔ اوراُس معاشرے کے اپنے ماحول سے تعلق رکھتا ہے۔ جوکھیت کیارسے جُڑا ہوتا تھا۔
|