|
.
(۳۸) بیل منڈھے ہونا یا چڑھنا، بیل پڑنا، بیل بدھنا۔
بیل منڈھے چڑھنا، بیل کے سہارا لینے کے عمل کوکہتے ہیں اس لئے کہ بیل تیزی سے بڑھتی ہے مگرسہارا چاہتی ہے اگر سہارا نہیں ملتا تووہ گِرپڑتی ہے اوربرباد ہوجاتی ہے کسی منصوبے یا تدبیر کے کامیاب ہونے کو بڑی بات اورتقدیرکی خوبی خیال کیاجاتا ہے۔ اسی لئے جب کوئی کام ہوجاتا ہے تویہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہ بس تقدیر کی خوبی ہے کہ بیل منڈھے چڑھ گئی ہمارے ہاں مددکرنیوالے توہوتے نہیں غلط سلط مشورہ دینے والے ملتے ہیں رکاوٹوں سے بچ نکلنا یا ان پر قابوپانا بڑی بات ہوتی ہے۔ تبھی گھریلوماحول میں اسے بیل منڈھنا کہتے ہیں ۔جوچیز یں تیزی سے آگے بڑھتی ہیں انہیںبیل بدھنا کہتے ہیں یعنی وہ بیل کی طرح پروان چڑھتی ہے یہ لڑکیوں کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ توبیل کی طرح بڑھتی ہیں۔
(۳۹) بے نمک ہونا۔
نمک ہمارے ہاں سالٹ (Salt)کوبھی کہتے ہیں اوراس سے کئی محاورے نکلے ہیں۔ نمک حلال اورنمک حرام اوردہلی میں ایک حویلی ایسی ہے جس کونمک حرام کہتے ہیں اورنمک کھانے کا معنی احسان مند کے ہیں۔ کسی کی نیکی خدمت اوربھلائی کا خیال کرنے کے ہیں۔ کہ ہم نے تواس کا نمک کھایا ہے بے نمک سالن کے معنی بے مزہ ہونے کے ہیں۔ یہاں تک کہ جس شخص کے رنگ میں ہلکی ہلکی ملاہت نہیں ہوتی حسنِ بے نمک کہتے ہیں جہانگیر نے کشمیر کے لئے لکھا ہے کہ کشمیرمیں نمک نایاب ہے یہاں تک کہ اس کے حسن میں نمک نہیں ہے ’’حتّے کہ حنش ہم نمک نمی دارد۔‘‘
(۴۰) بیوی کا دانہ یاکونڈا، بیوی کی صحنک یا نیاز بیوی کی فاتحہ۔
مسلمان گھرانوں میں یہ دستور چلا آتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ بنت رسولؐ مقبول کے نام کی فاتحہ دی جاتی ہے۔ اسے گھروں کی زبان میں بی بی کی صحنک یا بی بی کے کونڈے کہا جاتا ہے کونڈا مٹی کی بڑی تغاری کوکہتے ہیں۔ جب فاتحہ کے لئے اُس میں کچوریاں پوڑے میٹھے(گلگلے ) اورکھیرپکاکر اس پر نیاز دی جاتی ہے تواس کو کونڈابھرنا کہتے ہیں یہ محاورے ہماری معاشرتی زندگی اورگھریلو ماحول کی ایک خاص تصویر پیش کرتے ہیں اوران کے ساتھ جو رسم وابستہ ہے ان محاوروں سے اُس کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
(۴۱) بیوی کا غلام ہونا۔
اب سے کچھ زمانہ پہلے تک جب بڑے گھروں کی بیٹی رخصت کی جاتی تھی تواس کے ساتھ غلام اورباندیاں بھی دی جاتی تھیں کہ یہ آئندہ خدمت کے لئے ہیں رفتہ رفتہ جاگیر داریاں ختم ہوگئیں تویہ رسم بھی ختم ہوئی اب بیوی کے سامنے بول بھی نہیں سکتا بھیگی بلی بنا رہتا ہے یعنی اُس غلام کی طرح ہوتاہے جسے اپنے مالک یا ملکہ کی طرح بی بی کے سامنے بولنے کی جرات بھی نہ ہو وہ گویا بیوی کا غلام ہے۔اِس سے ہمارے معاشرے کی ذہنی روش کا پتہ چلتا ہے۔ کہ شوہر کے مقابلہ میں وہ بیوی کو کوئی درجہ نہیں دیتا تھا۔ اوریہ اس کی مخالف ایک صورت تھی کہ بیوی اس کی آقا بن جائے اورشوہر اس کا غلام نظر آئے ۔یہ صورت حال معاشرہ پسند نہیں کرتاتھا۔ تبھی توطنزا کہا گیا کہ بیوی کا غلام ہے۔
٭٭٭
|