|
.
(۱۷) پَرائے شگون کے لئے اپنی ناک کیوں کٹواتا ہے۔
آدمی کا حال کچھ عجیب ہے بہت سے کام وہ دوسروں سے حِرص کا رشتہ رکھنے کی وجہ سے محض لاگ کے طورپر کرتا ہے کہ تم ایسا کرتے ہوتوہم ایسا کریں گے اورایسی صورت میں یہ بھی نہیںسوچتا کہ جوکچھ میں دوسرے کی مخالفت کے طورپر کررہا ہوں وہ خود میرے لئے نقصان کی بات ہے ۔ بہت بڑے نقصان کی بات ہے اسی کی طرف اِس محاورے کی طرف اشارہ ہے کہ پرائے شگون کی وجہ سے اپنی ناک کیوں کٹواتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھا دیکھی کام نہیں کرنا چاہیے اپنی عقل سے بھی کام لینا چاہیے اس میں ایک بات اوربھی قابل لحاظ ہے اوروہ شگون لینا ہے جو تواہم پرستی کی ایک صور ت ہے اورقابل تعریف نہیں ہے آدمی اس کی وجہ سے بے عقل اور وہمی ہوجاتا ہے اور اپنے بُرے بھلے اورنفع ونقصان کے بارے میں بھی نہیں سوچ پاتا۔
(۱۸) پَرچھاوا ںپڑنا، پرچھاویں سے بچنا یا دُوربھاگنا۔
پرچھاواں پڑنا بھی اسی طرح کی ایک نفسیاتی صورتِحال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پرچھاواں پڑنے سے بھی آدمی کی عقل خبط ہوسکتی ہے اس کی جڑبنیادتوہمارے ہاں چھوت چھات کے تصور میں ہے کہ اگرکسی آدمی پر چھائی بھی پڑگئی توکھانے پینے کی کوئی شئے یا پھر آدمی کا اپنا وجودناپاک ہوگیا ہم ایسا سوچتے اورسمجھتے آئے ہیں اوریہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ برے آدمی کی پرچھائیںپڑنے سے آدمی کاا خلاق تباہ ہوجاتا ہے یعنی برے آدمی کی پرچھائیں بھی بری ہوتی ہے ہمارے معاشرتی رویوں میں موقع بہ موقع اس صورت حال کو دیکھا اور پرکھا جاسکتاہے کہ وہ نفسیاتی طورپر اپنے سماجی رویوں میں جائز اورنہ جائز حدود کا خیال نہیں رکھتے یہ آدمی کا عام ذہن ہے اورہمارے معاشرے کی کمزوری ہے اسی سے پرچھاویںسے بچنا یا دُوربھاگنا بن گیا۔
(۱۹) پردہ ڈالنا یا اٹھادینا ، پردہ پوشی، پردہ داری، پردہ ہونا۔
پردہ ہمارے معاشرے میں ایک غیرمعمولی رجحان ہے مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ اپنی عورتوں کو پردہ کرواتا ہے یہاں تک کہ اس میں یہ مبالغہ برتتا ہے کہ عورت کے لئے توآواز کا بھی پردہ ہے ۔ پردہ ایک حدتک ہندوؤں میں بھی رائج رہا ہے اور اب بھی ہے مگر اس شدت کے ساتھ نہیں ہے جومسلمانوں میں پردہ داری کی رسم ملتی ہے اب اُس کا رواج کم ہوگیا ہے لیکن مسئلے مسائل کی صورت میں اب بھی جب گفتگو آتی ہے تووہی تمام مبالغہ احتیاط اورشدت کی پرچھائیاں اس گفتگو میں ملتی ہیں۔ باتوں کوچُھپانا بھی داخل ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ گھر کی بات باہر نہ نکلے یہ رجحان ہمارے قدیم معاشرے میں اوربھی زیادہ تھا کہ لوگ خواہ مخواہ کی باتیں کرتے ہیں اور دوسروں کی کوئی کمزور ی کوئی مجبوری یا کسی شکرنجی کا حال اُن کو معلوم ہوجاتا ہے تووہ اس کو بری طرح اڑاتے ہیں مشہور کرتے ہیں اسی لئے وہ محاورہ آتا ہے کہ گھرسے نکلی کوٹھوںچڑھی یا منہ سے نکلی بات پرائی ہوجاتی ہے بعض باتوں کو چُھپانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ دوسروں کی ان باتوں کا پہنچنااچھا نہیں لگتا ہے کہ را زداری ہماری سماجی ضرورتوں کا تقاضہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم کتنی بات ضرورت کے تحت کرتے ہیں اورکتنی بات غیرضروری طورپر ۔ اس طرح پردہ داری ہو پردہ نشینی ہو پردہ گیری ہو یہ سب ہمارے معاشرتی رویوں کا حصّہ ہیں۔ اوراِن سے موقع بہ موقع ہماری سوچ کا اظہا رہوتا ہے راز درون پردہ جیسی ترکیبیں بھی اسی ذہنی رویہ کی طرف اشارہ کرتی ہیںپردہ ہے پردہ عام طورپر ہمارے گھروں میں بولا جا تاہے۔
(۲۰) پلیتھن نکالنا یانکلنا۔
گھریلو سطح کی زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے لفظوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محاورے چیوں کا محاورہ ہے پیلتھن نکالنا زیادہ سے زیادہ مکے یامکیاں لگانا ہے جس سے دوسرا ادھ مرا ہوجائے میر تقی میرؔ کا مشہور شعر ہے اوربازاری زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہاں پلیتھن نکل گیا واں غیر اپنی مُکیّ لگائے جاتا ہے۔
|