|
ردیف ’’ت‘‘
(۱)تاک لگانا، تاک میں رہنا۔
تاک کے معنی ہیں دیکھنا تکنا ہم بولتے ہی ہیں کہ وہ دیر تک تکتارہا تاک جھانک اسی سے بناہے میرتقی میرؔ کا مصرعہ ہے۔ تاکنا جھاکنا کھجونہ گیا یعنی جب موقع ملا دیکھ لیا نظر ڈال لی چوری چھپے دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سے سماجی رویہ سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح بعض سوالا ت خیالات اور تمنائیں ہمارے دل سے الجھی رہتی ہیں اورہم ان کے نظر بچاکر یا چوری چُھپے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اُردو شاعری میں حسن وعشق کے معاملات کے لئے اس طرح کی باتیں اکثر گفتگو میں آتی رہتی ہیں۔
(۲) تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
یہ ایک قدرتی عمل بھی ہے لیکن ہم نے اس کوایک سماجی عمل کے طورپر دیکھنے اورپرکھنے کی کوشش کی اوربظاہر کیا کہ کسی بات کی ذمہ داری بشرطیکہ اس میں خرابی کاکوئی پہلو ہو کسی ایک آدمی پرنہیں ہوتی وہ عمل دوطرفہ ہوتا ہے اوردوسرا کوئی شخص یافریق بھی اس میں شریک رہتاہے شرکت کا پیمانہ جوبھی ہوجتنا بھی ہو۔
(۳) تجاہلِعارفانہ ۔
جان بوجھ کر انجان بننا۔ تجاہل کے معنی ہیں لاعلمی ظاہر کرنا اورجانتے بوجھتے ہوئے ظاہرنہ کرنا جو ایک مکار ردعمل ہوتا ہے اورسماج میں اس کی بہت مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کچھ ہیں لیکن یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ نہ واقف ہیں۔
(۴)تعزیہ ٹھنڈا ہوجانا۔
تعزیہ دراصل اظہار ملال ہے بعض طبقوں میں تعزیہ اندھے کنوؤں میں پھینک دےئے جاتے ہیں بعض دریا میں بہادےئے جاتے ہیں ایسا بھی ہوتا انہیں سفید چادروں میں لپیٹ کر کسی تنہا جگہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ بہرحال جب تغیریہ دلالی کی رسمیں ختم ہوجاتی ہیں تومحاورتاً اُسے تعزیہ ٹھنڈا کرنا کہتے ہیں۔
(۵)تقدیر پھرنا، تقدیر کالکھایوں تھا، تقدیر کابناؤ، تقدیر کاپلٹاکھانا، تقدیر کا دامن، تقدیر کاکھیل۔
ہمارا معاشرہ تدبیر منصوبہ بندی اورکاوش میں اتنا یقین نہیں رکھتاجتنا تقدیر کو اسے بھروسہ ہوتا ہے یہ مشرقی قوموں کا ایک عام رویہ ہے۔ اورہندومسلمانوں میں نسبتازیادہ ہے۔ کہ وہ ہربات کو تقدیر سے منسوب کرتے ہیں چنانچہ تقدیر سے متعلق بہت محاورات ہیں جو ہماری زبان پر آتے رہتے ہیں۔ اوراس لئے آتے رہتے ہیں کہ ہم غیبی فیصلوں کو مانتے ہیں اوراُن سے باہر آکر سوچنا سمجھنا نہیں چاہتے اوپر دےئے ہوئے محاورات کا مطالعہ اسی نقطہ نظر سے کرنا چاہیے تقدیر کالفظ بدل کرکبھی قِسمت کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے قِسمت کا لکھا قِسمت کا کھیل قِسمت کا بننا اوربگڑنا کہا جاتا ہے۔
|