|
ردیف ’’ج‘‘
(۱) جادو لگانا، جادو چلانا، ڈالنا، کرنا، مارنا، جادو کاپتلا۔
جادو سحر کوکہتے ہیں اورسحر کے معنی ہیں ایسی بھید وبھری رات جس کے ذریعہ عقل کو حیرت میں ڈالنے والے کام کئے جاتے ہیں ہندوستا ن میں جادوٹونے کا رواج بہت رہا ہے اسی لئے ہم یہاںمنتر کے ایک معنی جادوبھرے الفاظ لیتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ اس نے کیا منتر پڑھ پھونک دیا ہے یہ تصوردوسری قوموں میں بھی ہے اورخود عرب بھی جادو کے قائل تھے کافر قرآن کی آیت کو نعوذباللہ سحرِ عظیم کہتے ہیں ہمارے ہاں جادو ڈالنا، جادوچلانا، جادو کرنا، عام طوپر بولا جاتا ہے جیسے اس کا جادو چل گیا اس نے جادو چلا دیا جادو تووہ ہوتا ہے جو سرپر چڑھ کے بولتا ہے اردو کا مشہور شعرہے۔ کیا لطف جو غیرپردہ کھولے جادُو وہ جو سر چڑھ کے بولے اس معنی میں جادُو ہماری سماجیاتی سوچ کا حصّہ کیاہے اورہم ماورائے جن چیزوں کے قائل ہیں۔ اورانہیں مافوق العادت کہتے ہیں یہ انہی کا ایک حصّہ ہے ایسے ہماری کہانی حقوق داستان اورشاعری کے نمونوں میں دیکھا پرکھا اور سمجھا ہندوستان میں خاص خاص موقعوں پر جادُو کیا جاتا ہے۔
(۲) جاگرن کرنا۔
جاگرن کرنا ہندوکلچرکا ایک اہم رسمی اورمذہبی پہلو ہے کچھ خاص منتر پڑھ کر چراغ روشن کرکے اوردھیا ن گیان کے سلسلہ کو اپنا کر عقیدتوں کو دل میں جگایا اورمن میں بسایا جاتا ہے اُسے بھگوتی جاگرن کہتے ہیں مغربی یوپی میںجاگئے کویا جاگ اُٹھنے کو جاگرکہا جاتا ہے جاگرمیں صرف آنکھیں کھلتی ہیں نیند کا سلسلہ ٹوٹتا ہے ’’جاگرن‘‘ میں دل کی غفلت دُور ہوتی ہے اورعقیدیں جاگ اٹھتی ہیں اس معنی میں جاگرن کلچر’تہذیب‘ اورمذہب سے وابستہ ایک عمل ہے۔
(۳)جال بچھانا، پھیلانا، یاڈالنا، جال میں پھنسنا ، یاپھنسانا۔
جال ایک طرح کا وسیلہ شکار ہے شیر سے لیکر مچھلی تک اورمچھلی سے لیکر پرندوں تک جا ل میںپھنسایا جاتا ہے۔ جال پانی میں پھینکا جاتا ہے اونچی چھتری پر لگایا جاتا ہے جہاں کبوتر آکر بیٹھتے ہیں اوراُس جال میں پھنس جاتے ہیں یہی صورت مچھلیوں کی ہوتی ہے اوریہی شکل اُن پرندوں کی ہوتی ہے جوزمین میں دانہ چُگنے کے لئے اترتے ہیں اوراُس جال میں پھنس جاتے ہیں جس پر دانہ بکھیرا ہوتا ہے۔ انسان بھی فریب جھوٹ دغا اور فکر کا شکار ہوتا ہے اوران زبانی وسائل کوبھی جال ہی کے طورپراستعمال کیا جاتا ہے وہ بھی فریب دہی کا عمل ہے جس کاسلسلہ کون جانے کب سے رائج ہے مگریہ بات برابر ہورہی ہے اِس کا پیمانہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے اِس دام فریب کے حلقوں میں برابر اضافہ ہورہا ہے اورسماج اس سے باہر نہیں نکل پایا غالبؔ کا شعریادآگیا۔
دامِ ہرمو ج میں ہے حلقۂ صدکام نہنگ دیکھیںکیا گذرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک۔
|