|
.
اُس کو چراغاں کہتے ہیں ۔ دیوالی پر یا عُرس کے موقع پر یہی چراغاں تو کیا جاتا ہے۔ ہندوانی رقص ایک وہ بھی ہوتا ہے جو چراغوں کی تھالی سر پر رکھ کرکیا جاتا ہے اُس کو رقص چراغ کہتے ہیں بعض مندروں خانقاہوں اور مزارات پر بہت سے چراغ جلانے کے لئے مینا ر بھی تعمیر کئے جاتے ہیں جسے چراغ مینار کہتے ہیں ۔
(۷)چشم پوشی کرنا ۔
چشم سے متعلق ہمارے ہاں بہت سے محاورے ہیں اُن میں’’ چشم نمائی‘‘ ، چشم بددُور ، چشمِ بیمارجیسے ترکیبی محاورے شامل ہیں مثلاً چشمِ بیمار ایک شاعر انہ اندازِ نظر ہے خماری آنکھیں ، چشمِ نیم بار یا چشمِ نیم خواب جن آنکھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اُن کو محاورہ چشمِ بیمار بھی کہا جاتا ہے۔غالبؔ اپنے ایک دوست اور شاگرد میرنؔ صاحب کی آنکھوں کو چشمِ بیمار کہتے تھے اس سلسلے میں یہ تشریح بھی آئی ہے کہ خمار آلودیا متوالی آنکھیں یہ عام طور پر معشوقوں کی آنکھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور اُس سے ہمارے معاشرے کی تہذیبی سطح کا بھی شاعرانہ اظہار ہوتا ہے۔ ’’چشم نمائی کرنا‘‘۔طنزیہ اندازسے کوئی فِقرہ کہنا اور آنکھوں کا اشارہ کرنا چشم نمائی کہلاتا ہے۔ ایسا ہی ایک ترکیبی محاورہ انگشت نمائی سے چشم پوشی تہذیبی اعتبار سے غیر معمولی محاورہ ہے جب ہم دوسروں کی طرف سے کوئی برائی دیکھتے ہیں اور اُس پر کوئی اختلاف پیدا کرنا بھی نہیں چاہتے تو اُس کو نظر انداز کرتے ہیں اور اُس کو چشم پوشی اختیار کرنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں یہ نہایت اہم معاشرتی رویہ ہے جو وقتاً فوقتاً اس لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ اختلافات کو آگے بڑھنے سے روکا جائے اوراِس اَمر کی شعوری کوشش کی جائے۔ تاکہ تعلقات میں کوئی بدمزگی یا بدنمائی پیدا نہ ہو۔
(۸)چمک چاندنی۔
چاندنی کے ساتھ روشنی اور نور کا تصور وابستہ ہے چمک دمک کا نہیں ایسی عورت جو بہت چمک دمک سے رہتی ہے اور غیر ضروری طور پر سنگار پٹار کرتی ہے وہ معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتی بلکہ اُس کو ایک طرح پر فاحشہ عورت تصور کرتے ہیں۔اس نسبت سے یہ محاورہ ہماری معاشرتی فِکراوراندازِ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔
(۹)چندے آفتاب،چندے ماہتاب،چودہویںرات کا چاند۔
جو آدمی دوسروں کی نظر بہت قبول صورت اور پُرکشش ہوتا ہے اُس کو بطورِ تعریف کہتے ہیں کہ وہ چندے آفتاب و چندے ماہتاب ہے جس کہ یہ معنی ہیں کہ وہ چاند سورج کی طرح دل آویزہے۔ اور نگاہوں کو فرحت بخشنے والا ہے۔ چاہے اُنہیں کسی وقت بھی دیکھا جائے رات کو دن کو صبح کو شام کووہ ہروقت اور ہر حالت میںخوش منظر ہیں ، خوبصورت ہیں۔ اس سے معاشرے کی خوش ذوقی اور زبان کی خوبصورتی کا پتہ چلتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ہمارے یہاں مبالغہ آرائی کو حُسن بیان سمجھا جاتا ہے اور اِسی سے ہماری شاعری اور دوسرے فنون لطیفہ کی مقصدیت اور Approachسامنے آتی ہے۔چودھویں رات کا چاند ہونا اُسی کی ایک خوبصورت مثال ہے۔
(۱۰) چور کی داڑھی میں تنکا۔ چورمحل، چوری اور سینا زوری یا چوری اور سینہ ز وری، چوری چوری ، چوری چھُپے ، چور کی ماں کوٹھی میں سر دیوے۔ اور رووے ۔ چورنی دیدہ، چوری چنکاری یا چوری جاری۔
چوری چکاری یا چوری جاری ہمارے بہت بڑے سماجی عیبوں میں سے ہے۔ اِس سے چوری چھُپے بہت سے بُرے لوگ اپنے ساتھیوں یا غیر ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اُس طریقہ سے سماج میں ناہمواریوں اور عیب داریوں کو رواج دیتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ اسے پہچانتے یا اُسے جانتے نہ ہوں۔اسی لئے ہمارے ہاں ایسے محاورے رائج ہوئے کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا جس کے یہ معنی ہیں کہ چوری کا عیب اگر آدمی کی فطرت میں داخل ہوجاتا ہے تو پھر ایک سطح پر یہ اُس کی عادت بن جاتی ہے اور وہ اُسے کہیں نہ کہیں موقع پاکر اپنے حق میں استعمال کرتاہے۔
|