|
.
جاٹ اُس وقت توچُپ ہوگیا مگر دل میں بدلے کی بھاؤنا لئے بیٹھارہا ایک دن دیکھا کہ تیلی اپنا کولہولئے جاتا ہے جاٹ نے جواباً کہا تیلی رے تیلی ترے سرپہ کولہو تیلی ہنسا اورکہنے لگا جچی نہیں جاٹ نے جواب دیا جچے نہ جچے توبھوجھوں تومرے گا۔محاوراتی اُسلوب کا راستہ پل صراط سے زیادہ خطرناک ہے غزل کے ہرشعرکی طرح اس کا تعلق آبدار اوربرجستگی سے ہے پھریہ کہ عورتوں سے محاورے زبان کی طراری اورایک مخصوص معاشرتی تربیت کے بغیراس پر شکوہ اورپرخطرمہم کا سرکرناممکن نہیں ہے۔ نذیراحمد کی زبان ٹکسالی ہے لیکن ان کی تصنیف امہات الامۃ کو لوگ کہتے ہیں اسی لئے نذرآتش کیا گیا تھا کہ اس میں ایک محاورہ یہ بھی تھا کہ جوتیوں میں دال بٹنے لگے گی۔ اب نہ اُردوئے معلی رہی اورنہ گلی کوچوں میں بولا جانے والا ریختہ، جمہوری انقلابات نے ماضی کے تمام امتیازات کی جڑیں اکھاڑپھینکی ہیں عورت مردسب بچھڑی زبان بول رہے ہیں۔ جولوگ زبان کا حسن اورمحاورے کی وابستگی کا رونا روتے تھے وہ بھی قصہ پارینہ ہوئے جواب دکھائی دیتے ہیں وہ کل ناپید ہوجائیں گے ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔ ایسے میں عشرت ہاشمی کا یہ کارنامہ ایک تاریخی دستاویز کادرجہ رکھتا ہے عشرت نے بہادر شاہ ظفرؔ کے عہداورشاعری پرپہلے بھی کام کیا ہے انہیں اس دورسے ربطِ خاص ہے جس میں محاورات اورضرب الامثال کا چلن نے اُردوزبان کومقبولیتِ عام اورشہرتِ دوام بخشی تھی محاورے کیسے بنتے ہیں ان کی ساخت میں معاشرت کاکس کس عمل اورانسانی فکر کے کن کن زاویوں کا دخل ہوتا ہے یہ سمجھے بغیرمحاوراتی اسلوب کو برقرار رکھنا ناممکن ہے اورمحاوراتی اسلوب کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد اردو زبان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی ہماری ہزار آٹھ سوسال کی محنت اورجانفشانی رائیگاںہوجائے گی محاورات اورضرب الامثال پر اردومیں متعددلغتیں اورفرہنگیں موجودہیں لیکن اُنکی تہذیبی اور کلیدی جہتوں پر اہل زبان کی نظر کم گئی ہے ۔ کچھ عرصے پہلے تک یہ ضروری بھی نہیں تھا کیونکہ تہذیب کے سوتے ہمارے وجود میں ضم ہوگئے تھے ملک کی تقسیم نے اُردو کو دوخطوں میں باٹ کر ظلم عظیم کیا ہے۔ وہ خطّہ جوپاکستان کہلاتا ہے ہمارے تہذیبی شعور سے متعلق ناآشنا ہے اورہندوستان میں بھی طرح طرح کے سیاسی انقلاب نے تہذیب اورتمدن کو نزاعی مسئلہ بنادیا ہے۔ چنانچہ اس نازک دورمیں ڈاکٹر عشرت ہاشمی کا یہ کام جودقیع اور جامع ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبی مرقعوں کی افہام وتفہیم کا فریضہ انجام دیتا ہے لایقِ ستائش ہے مجھے یقین ہے کہ یہ اُردوبولنے والوں کے لئے سیکھنے اورسکھانے کا ذریعہ بنے گا مرتب کی ذہانت کاوش دیدہ ریزی اورتاریخِ معاشرت سے دلچسپی کتاب کی مقبولیت کی ضامن ہے۔ اشاعت کے لئے اردواکادمی بھی شکریہ اورمبارکباد کی مسحتق ہے۔
سید ضمیرحسن دہلوی ۱۲!مارچ ۲۰۰۶ ۔
|