|
تیرِ نگاہ
ہجر میں کیا حال ہےمعشوق کےبھائی نہ پوچھ
نام سےبیزار ہیں کیوں میرےحلوائی نہ پوچھ
کتنی کھا جاتا ہوں اس کےغم میں بالائی نہ پوچھ
کاوےکاوےسخت جانےہائےتنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہےجوئےشیر کا!
”واہ وا!“ نصیر ہنس کر بولا۔ ”یہ معشوق کا بھائی بھی خوب رہا“۔ اور نوازش بولا۔
”لیکن یہ مت بھولنا کبھی معشوق کا بھائی جان کالا گو بھی ہو جاتا ہی“۔
”معلوم ہوتا ہےتمہیں اس کا کچھ تجربہ ہو چکا ہی“۔ ذاکر نےکہا اور نوازش مسکرا کر بولا۔
”دنیا ہےبھی تو ایک تجربہ گاہ ہی“۔ لو اب مجھ سےسنو!
لو شباب آیا مزاج یار ٹیڑھا ہو گیا
نیم پر چڑھ کر کریلا اور کڑوا ہو گیا
نت نئےارماں نکالےاک حسیں کےعشق میں
دل میرا گویا مداری کا پٹارا ہو گیا
”یہ تو تم نےاپنےحسب حال ہی کہا۔ ”ذاکر نےمسکرا کر کہا۔ ”لیکن ایک دل پھینک کا دل مداری کےپٹارےمیں بند نہیں رہ سکتا۔ یہ کہو دل میرا گویا مشہور ہر جائی ہو گیا“۔
”لیکن جب سےمغربی تہذیب کا رنگ چڑھا ہے”یار “ اب کڑوا کریلا نہیں رہا“۔ نوازش بولا۔ ”آج کل محبوب تو کیڈبری چاکلیٹ معلوم ہوتےہیں۔ یعنی نرم نوالےاور نرم لچھے“۔
سب ہنسنےلگی۔
”منیر!“ نصیر نےکہا۔ ”اب تمہاری باری ہی“۔ منیر نےیہ اشعار سنائی۔
محفل عیش میں ایں زیرو زبر می بینم
ٹاٹ اور بانس کےفٹ پاتھ پہ گرمی بینم
ٹھوکریں کھاتےہوئےلعل و گہرمی بینم
عارض خشک پہ فاقےکا اثر می بینم
چار سوتاک میں اغوا کےہنرمی بینم!
”واہ وا!“ ذاکر نےداد دی۔ ”یہ اغوا کےہنر نےتو مزا دےدیا“۔ اور نصیر بولا۔
”یہ اشعار گوہیں تو مزاحیہ لیکن ان میں نکتےبھی بڑےنازک نازک پوشیدہ ہیں“۔ لو ! اب مجھ سےسنو !
چڑھا ہےخود آرائی کا بھوت سر پر
خریدیں گےوہ آج بازار جا کر
مسی سرمہ غازہ لپ اسٹک پائوڈر
انگوٹھی کرن پھول صابن کی بٹی
بمشکل ہمیں ہاتھ دھرنےدئیےہیں۔
|