|
۔
اس نے آنکھوں میں
آنسو بھرتے ہوئے کہا۔“ برمک تم بہت بری خبر لائے ہو۔ ٹھہرو میں تیار ہو
اؤں!“
نعیم واپس جاکر نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ نرگس اس کا مغموم چہرہ دیکھ کر ہزاروں
توہمات پیدا کر چکی تھی۔ جب نعیم نے نماز ختم کی تو اس نے جرات کر کے پوچھا۔ ”آپ
بہت پریشان ہیں۔ کیسی خبر لایا ہے وہ؟“
”نرگس ہم ابھی سمرقند جا رہے ہیں۔ تم فوراً تیار ہو جاؤ!“
نرگس کامغموم چہرہ نعیم کے اس جواب پر خوشی سے چمک اٹھا۔ اس کے دل میں نعیم کے ساتھ
رہ کر زندگی کے تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کی جرات موجود تھی لیکن مصیبت میں اس
سے تھوڑی دیر کے لیے جدا ہونا اس کے لیے موت سے زیادہ خوفناک تھا۔ اس کے لیے یہی
کافی تھا کہ وہ نعیم کے ساتھ جا رہی ہے۔کہاں اورکن حالات میں۔ وہ ان سوالات کا جواب
پوچھنے سے بے نیاز تھی۔
(۳)
سمرقندکے قلعے کے ایک کمرے میں قتیبہ اپنے منظور نظر سالاروں کے درمیان بیٹھا ان سے
باتیں کررہا تھا۔ کمرے کی دیواروں کے ساتھ چاروں مختلف ممالک کے بڑے بڑے نقشے
آویزاں تھے۔ قتیبہ نے چین کے نقشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”ہم اس وسیع ملک
کوچند مہینوں میں فتح کرلیتے، لیکن نئے خلیفہ نے مجھے برے وقت واپس بلایا ہے۔ تم
جانتے ہو وہاں میرےی ساتھ کیا سلوک کیاجائے گا؟“
ایک جرنیل نے جواب دیا۔”وہی سلوک جو محمد ؒ بن قاسم کے ساتھ کی گیا ہے!“
”لیکن کیوں؟“ قتیبہ نے پرجوش آواز میں کہا۔ ”مسلمانوں کو ابھی میری خدمات کی ضرورت
ہے ۔ چین کو فتح کرنے سے پہلے اپنے آپ کوخلیفہ کے حوالے نہیں کروںگا!“ قتیبہ نے پھر
نقشہ دیکھنا شروع کردیا۔
اچانک نعیم کمرے میں داخل ہوا۔ قتیبہ نے بڑھ کر اس سے مصافحہ کیا اور کہا۔”افسوس
تمہیں بے وقت تکلیف دی گئی۔ اکیلے آئے ہو یا....؟“
”میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آیاہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ شایدمجھے دمشق جانا
پڑے۔“
”دمشق؟“ نہیں ایلچی نے شاید تمہیں غلط بتایاہے۔ دمشق میں تمہیں نہیں مجھے بلایا گیا
ہے۔ نئے خلیفہ کو میرے سر کی ضرورت ہے۔“
”اسی لیے تو میں وہا ں جانا ضروری خیال کرتا ہوں۔“
”نعیم!“ قتیبہ نے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ”میں نے تمہیں اس
لیے نہیں بلایا کہ تم میری جگہ دمشق جاؤ۔ مجھے تمہاری جان اپنی جان سے زیادہ عزیز
ہے، بلکہ میں اپنے ہرایک سپاہی کی جان اپنی جان سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے
تمہیں اس لیے بلایاہے کہ تم بہت حد تک معاملہ فہم ہو۔ میں تم سے اور اپنے باقی
جہاندیدہ دوستوں سے پوچھنا چاہتاہوں کہ مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟ امیر الماؤمنین
میرے خون کا پیاسا ہے۔“
نعیم نے اطمینان سے جواب دیا ”خلیفہ وقت کے حکم سے سرتابی ایک مسلمان سپاہی کے
شایانِ شان نہیں۔“
”تم محمدؒبن قاسم کا انجام جانتے ہوئے بھی مجھے یہ مشورہ دیتے ہو کہ میں دمشق جاؤں اور اپنے ہاتھوں سے اپنا سر خلیفہ کے سامنے پیش کروں؟“
”میرا خیال ہے خلیفة المسلمین آپ کے ساتھ اس درجہ برا سلوک نہیں کریں گے لیکن اگر
یہاں تک نوبت آبھی جائے تو ترکستان کے سب سے بڑے جرنیل کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ
اطاعت امیر میں کسی سے پیچھے نہیں۔‘
قتیبہ نے کہا۔”میں موت سے نہیں گبھراتا لیکن یہ محسوس کرتاہوں کہ اسلامی دنیا کو
میری ضرورت ہے۔ چین کو فتح کرنے پہلے میں اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنے سے
گھبراتاہوں۔ میں ایک اسیر کی موت نہیں بلکہ ایک بہادر کی موت چاہتاہوں۔“
”دربار خلافت میں شاید آپ کے متعلق کوئی غلط فہمی پیدا ہوگئی ہو۔ بہت ممکن ہے وہ
دور ہو جائے۔ |