|
حضرت شاہ کمال بغدادی
مشرقی پنجاب کےضلع کرنال کی ایک تحصیل کتھیل ہی‘ جو دہلی سے124 میل کےفاصلہ پر واقع ہی۔ سنکسرت میں کیس بندر کو اور تھل رہنےکی جگہ کو کہا جاتا ہےکتھیل کا پرانا نام اسی وجہ سےکیس تھل تھا جو امتدادِ زمانہ کی وجہ سےکتھیل ہو گیا۔ یہ علاقہ ہندوئوں کا گڑھ تھا۔ اس علاقےمیں ہی تھائیس جس کو عرفِ عام میں پانی پت کہا جاتا ہےجہاں کئی فیصلہ کن جنگیں ہوئیں۔ کتھیل میں سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ بھی مدفون ہی۔
ہندو لوگوں کا خیال ہےکہ کتھیل کو ہنومان نےآباد کیا تھا کیونکہ اس جگہ ہندوئوں کی اکثریت تھی۔ استھان انجنی بھی یہیں پر واقع ہےیہ ایک مندر ہےجو ہنومان کی ماں کےنام سےمنسوب ہی۔
کتھیل میں ایک تالاب کےکنارےایک ہندو فقیر رہتا تھا جس کا نام باواستیل داس تھا۔ اس کا کام لوگوں کو عجیب و غریب شعبدےدکھانا تھا وہ اپنےپیٹ سےاپنی انتڑیاں باہر نکال لیتا اور پھر ان کو دوبارہ پیٹ میں ڈال دیتا۔ لوگوں میں یہ کرشمہ خوش فہمی اور خوش عقیدگی کا باعث بن چکا تھا لوگ دوردراز سےستیل داس درشن کو آتےاور عجیب و غریب تماشےدیکھتی۔ تماشا کوئی بھی ہو وہ لوگوں کی نظروں کا مرکز بنا رہتا ہےاور پھر حیرت انگیز تماشےتو خواہ مخواہ ہی لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتےہیں۔ حضرت شاہ کمال کتھیل کےویرانےسےگزر رہےتھےکہ آپ نےلوگوں کا ہجوم دیکھا۔ آپ بھی متجسس ہو کر آگےبڑھےاور ستیل داس کو اپنی انتڑیاں نکال کر صاف کرتےدیکھا۔ آپ نےاس ہندو فقیر کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ ایسا کرنےسےتمہاری صفائی قلب تو ممکن نہیں اور اگر حصول یابی شہرت مطلوب ہےتو خیر اور بات ہی۔ یہ کہہ کر شاہ کمال آگےروانہ ہو گئےمگر ستیل داس کی صورتحال عجیب ہو گئی۔ حسب معمول جب وہ اپنی انتڑیاں دوبارہ پیٹ میں رکھنےکی کوشش کرتا وہ واپس نہ جاتیں۔ اس نےمتعدد بار یہ عمل دہرایا مگر بےسود‘ اچانک اس کا خیال شاہ کمال کےجملوں کی طرف گیا۔ اس نےفوراً ہجوم سےمخاطب ہو کر دریافت کیا کہ وہ شخص کون تھےجنہوں نےکلماتِ تنقیدی میری ریاضت سےمتعلق کہےتھی۔ لوگوں نےکہا گرو بابا وہ مسلمانوں کےکوئی بزرگ تھی۔
ستیل داس کی بات سےبہت لوگوں نےشاہ کمال کےمتعلق سوچا اور ان کی بزرگی دھیرےاور دھیمےانداز سےان کےدلوں میں اتر گئی۔ بعض نےستیل داس سےسوال کیا کہ وہ بزرگ کیا تم سےزیادہ صاحب کرامت ہیں۔ ہندو فقیر نےکہا اس شخص نےمجھےناکام کر دیا ہی۔ ان کی نظر بڑی پراثر ہےمَیں بلاتامل اعتراف کرتا ہوں کہ مَیں ان جیسےولی کامل سےکسی طرح مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مجھےان تک پہنچائو ورنہ میرا زندہ رہنا محال ہو جائی۔ اس فقیر کو اٹھا کر حضرت شاہ کمال کی اقامت گاہ پر لایا گیا۔ وہ اپنی آنتوں کو دونوں ہاتھوں سےتھام کر آہ وزاری کر رہا تھا۔ حضرت شاہ کمال نےجب دیکھا تو فرمایا کہ تماشا تو بہت دکھا لیتےہو لیکن اپنا علاج نہیں کر سکتی۔ ایسا کہنا تھا کہ آنتیں خودبخود پیٹ میں چلی گئیں۔ اسی اثنا میں ستیل داس حضرت شاہ کمال کےقدموں میں گر پڑا اور گڑگڑا کر درخواست کرنےلگا کہ اب اس کےمسیحا‘ آپ ہی ہیں۔ آپ کےعلاج سےہی صحت یابی ممکن ہی۔ شاہ کمال نےاس کی چھاتی پر اپنا دست شفقت پھیرا۔ گویا اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہ مسلمان ہو گیا او رشب و روز آپ کی خدمت میں گزارنےلگا اور روحانیت میں اتنی ترقی کر گیا کہ ایک روز حضرت شاہ کمال سےاس نےخرقہ خلافت بھی حاصل کر لیا۔
حضرت شاہ کمال 895 ہجری بروز جمعتہ المبارک حاجی حافظ سید عمر کےگھر مشرقی
بغداد میں پیدا ہوئی۔ سید عمر طب و حدیث‘ فقہ‘ اصول معقول و منقول میں یکتائےروزگار
تھی۔ آپ دقیق سےدقیق مسئلہ لمحوں میں حل کر لیا کرتےسید عمر کا سلسلہ نسب سیدناحضرت
عمر فاروق سےملتا ہی۔
|