|
توہین رسالت: غیرت ایمانی کی آزمائش
مولانا مفتی عبدالعرفان کا فتویٰ اور....
گزشتہ دنوں بھارت کی اسلامی شریعت کی ایک عدالت نےجو لکھنو میں قائم ہی‘ ایک فتویٰ جاری کیا ہےجس کی رو سےڈنمارک کا وہ کارٹونسٹ واجب القتل قرار دیا گیا ہی‘ جس نےآنحضور کےتوہین
آمیز خاکےبنائےاور شائع کیےہیں۔ ایران کی مذہبی عدالتوں نےبھی قبل ازیں ایسےہی فتاویٰ جاری کیےہیں لیکن بھارت شاید پہلا غیراسلامی ملک ہےجس کی کسی مذہبی عدالت نےاس قسم کا فتویٰ جاری کیا ہی۔ قاضی عدالت مولانا مفتی عبدالعرفان نےکہا ہےکہ قرآن حکیم میں صاف صاف یہ لکھا ہوا ہےکہ جو بدبخت
آنحضور کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوا ہی‘ اسےسزا دی جائی۔ قاضی صاحب نےیہ بھی کہا ہےکہ دنیابھر میں مسلمان جہاں کہیں رہتےہوں ‘اس فتوےکی تعمیل ان پر لازم ہی۔
میری نگاہ میں اس موضوع پر کسی بھی قسم کےفتوےکی کوئی ضرورت نہ تھی۔ سارےعالم اسلام میں اس خبرپر جو ردعمل ہوا ہےوہ کسی فتوےیا فیصلےکی بناءپر نہیں ہوا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہی‘ اس پر واجب ہےکہ وہ اس حرکت شنیعہ کا نوٹس لےاور مجرم کو سزا دی۔ محمد کی غلامی دین حق کی شرط اول ہےاور اس باب میں کسی کلمہ گو کو کوئی شک یا کوئی شبہ نہیں البتہ بات یہ ہےکہ یہ معاملہ ایک فرد کا نہیں۔ یہ جرم کسی اکیلےدکیلےشخص نےنہیں کیا بلکہ ڈنمارک کی پوری حکومت اس میں ملوث ہی۔ اب ذرا اس سےاور
آگےچلیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ڈنمارک براعظم یورپ کا محض ایک ملک ہی‘ جبکہ پورا یورپ‘ یورپین یونین کےروپ میں ڈنمارک کی پشت پر کھڑا ہے(ترکی اس میں شامل نہیں لیکن ترکی یا اس طرح کےایک
آدھ اور ملک کی کون سنتا ہی؟)
اس حوالےسےدیکھا جائےتو یہ جرم کسی ایک غیراسلامی ملک نےنہیں کیا بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ تمام غیراسلامی دنیا ایک طرف ہےاور مسلم دنیا دوسری طرف ہی۔ جن غیرمسلم زعمائےسیاست یا دانشوروں نےاس ہتک
آمیز گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مخالفت بھی کی ہےتو اس کی لےبہت دھیمی ہےاور دوٹوک نہیں ہی۔ دوسرےمعنوں میں یہ کہا جائےگا کہ یہ معاملہ بین الاقوامی بھی ہےاور بین الادیانی بھی۔ جب ہم اس سطح پر معاملےکا جائزہ لیتےہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیےکہ مسلم دنیا‘ یورپ سےاس نوع کی دریدہ دہنی کا انتقام کیسےاور کس طرح لےسکتی ہےکیا ہمیں یعنی مسلم دنیا کو اپنا گھربار نذرآتش کر کےاس کا بدلہ چکانا چاہیےیا اس کا کوئی او رطریقہ بھی ہی؟
میری ناقص رائےمیں اس طریقےکےدو پہلو ہیں۔ ایک تو اخلاقی یا انسانی پہلو ہےیعنی دنیا کےکسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی رسول خدا کی شان میں اس طرح کی گستاخی کر کےان کی امت کی دلآزاری کرےاور دوسرا پہلو یہ ہےکہ اگر کوئی شخص‘ ادارہ‘ حکومت‘ قوم براعظم یا چند اقوام ایسا کریں تو اس امت میں اتنا دم خم ہونا چاہیےکہ وہ زور قوت اس کا جواب دےسکی۔ ماضی کی صلیبی جنگیں اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بات صرف اہانت ذات رسول کی نہیں بلکہ پوری امت اسلامیہ اگر ایک جسد واحد ہےتو پوری امت کیلئےکسی فتوےکی کوئی ضرورت نہیں۔ 712ءمیں حجاج بن یوسف نےکس شریعت کورٹ کےفتوےپر ہندوستان پر چڑھائی کی تھی؟ اس نےتوصرف ایک مسلمان خاتون کی فریاد سنی تھی اور اپنےبھتیجےکو حکم دیا تھا کہ اس کی ”قومی بےعزتی“ کا انتقام لیا جائی۔
برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کا زوال حقیقی معنوں میں 1756ءکی جنگ پلاسی میں
شروع ہوا۔ سات سمندر پار سےآنےوالی ایک ایسی قوم جو شراب بھی پیتی تھی‘ سور کا گوشت
بھی کھاتی تھی اور اخلاقی بےراہروی میں بھی انتہائی پست تھی‘ اس نےپلاسی کےمیدان
میں جنرل کلائیو کی شکل اختیار کی اور نواب سراج الدولہ کی اس فوج کو شکست دےدی جس
میں ہزاروں جوان اور آفیسر نہ صرف پابند صوم وصلوٰة تھےبلکہ نہایت پاکباز اور راست
اخلاق بھی تھے۔
|