|
.
(۲۹)دُھرے اڑانا۔
مغربی یوپی میں یہ محاورہ عام ہے اوراِس کے معنی ہوتے ہیں بُری طرح پیش آنا سخت سزا دینا اوراذیت پہنچانا،ممکن ہے یہ لفظ دُرے سے بناہو۔ عربوں میں دُرے مارکر سزا دی جاتی ہے اور یہاں بھی دُھرے اُڑانے میں سزا ایزاپہنچانے کا تصور شامل رہتا ہے۔ ’’چرنجی لال ‘‘نے ا س کے مفہوم میںدھجیاں اُڑانے کو بھی شامل کیا ہے۔
(۳۰)دہلی کاکُتّا، دہلیزکا کتا، دہلیزنہ جھانکنا۔
کتا اگرچہ ایک وفا دار جانور ہے لیکن اُس کا نام تک ذلت کے ساتھ لیا جاتاہے ہم اپنی سماجی زندگی میں کتے کو بے عزت سمجھتے ہیں۔ اوربے عزتی کے ساتھ اُس کا نام لیتے ہیں۔ بلکہ کُتّا کہنا یا کُتّا کہہ کر پکارنا ہماری سماجی زبان میں ایک طرح کی گالی ہے۔ ’’کتے بلی کی زندگی گزارناہے، بے عزت ہوکر جینا ہے اسی لئے جسے ’’دہلی کا کتا‘‘ کہتے ہیںاُسے مفت خور ، بے عزت اور گرا پڑا قرار دیتے ہیں۔ ’’کتے بھونکنا‘‘ ویرانی کے لئے آتاہے۔ اور جب یہ کہتے ہیں کہ اُن گلیو ںمیں کُتے روتے ہیں۔اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آسیب زدہ ہے۔ اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب آسمان سے بلائیں اترتی ہیں تووہ کتوں کو نظر آجاتی ہیں۔ اوراسی کو دیکھ کر روتے ہیں۔ اسی لیے کتے بلی کارونا منحوس خیال کیا جاتاہے۔ یہ ہمارے سماج کی تواہم پرستی ہے اوریہ بھی واقع ہے کہ کتے بعض چیزوں کو سونگھ کر اچھے بُرے کا پتہ چلالیتے ہیں۔ اوراس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ کتے کی دُم ہونا،یعنی اس کا اپنا ایک کردار ہے ، بُراکردار جس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ کُتے کے گلے پٹہ باندھنا ،یعنی ’’تابعدار بنانا، کتے کی طرح دم ہلانا ‘‘یعنی عاجزی اورخوشامد کا اظہار کرنا۔ گلی کا کُتّاہوناکسی کام کا نہ ہونا اسی لئے کہتے ہیںاوردھوبی کے کتے سے اُسے تشبیہہ دیتے ہیں توکہتے ہیں کہ دُھوبی کا کتا گھرکا نہ گھاٹ کا،دہلیز نہ جھانکنا، دہلیز پر کھڑا ہونا، اس کے یہ معنی ہیں کہ ادھر کوئی آیا بھی نہیں ۔ دروازے پر کھڑا بھی نہیں ہوا۔ مانگنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ اصل میں دروازے پر جانا اس کی طرف اِشارہ ہوتا ہے کہ کسی سے کچھ مانگنے گیاہے اِس کی طرف ہمارے فارسی اوراردو لڑیچرمیں برابر اشارے آتے رہے ہیں۔
(۳۱)دہلی کے لیولے ڈالنا۔
یہ عجیب وغریب محاورہ ہے ’’لیور‘ مٹی کی تہوں کوکہتے ہیں اگرکسی آدمی کے بار بار آنے جانے سے ’’لیور‘‘ اُکھڑجائیں اورمٹی کی تہیں باقی نہ رہیں توآنے جانے کی زیادتی کا اندازہ ہوتاہے اچھانہیں سمجھا جاتا۔اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔ قدر کھودیتا ہے ہرروز کا آناجانا مگرکسی فرض کی ادائیگی یا ضروری کام سے جانا اس حکم میں نہیںآتا۔ اس سے ہم سماجی رویوں کاپتہ چلا سکتے ہیں کہ وقت کی بھی کوئی قدروقیمت ہوتی ہے اورآدمی کی بھی خواہ مخواہ اپنا اوردوسرے کا وقت ضائع کرنا، اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
(۳۲)دُھندکاپساراہونا۔
دُھندکاپھیلارہنا آنکھوں سے نہ نظرآنا ہے خواہ وہ آنکھوں کی کمزوری کے باعث ہو یا دُھواں گھٹنے کی وجہ سے ہو یا دُھندپھیل جانے کی وجہ سے ہم جب نہیں دیکھ سکتے تودھوکا کھاجاتے ہیںفریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اسی لئے دھوکہ یافریب کویعنی ’’دُھندکا بسارا‘‘کہتے ہیں۔’’دُھندلکا‘‘اسی سلسلے کا ایک بہت معنی خیزلفظ ہے دھندلکا چھایا ہوا ہے یعنی صورتِ حال صاف نہیں ہے۔
(۳۳)دَھن دَھن کرنا۔
مبارک باددینا ،بہت مشہور فقرہ ہے کام سنوارو ںاپنا دَھن دَھن کریں لوگ کابگاڑو اپنا پَھٹ پَھٹ کریں لوگ’سماج میں دَھن دولت کو بھی کہتے ہیںاورخوشی کے اظہار کو بھی خواہ مخواہ دَھن دَھن کرنا ذورذور بولنا بیکارباتیںکرناہے۔
|