|
.
اَفلاطون قدیم یونان کاایک بہت بڑا فلسفی ، طبیب اوردانشورتھا۔ ارسطو اسی کا شاگرد تھا۔ افلاطونی نظریات یونانی فلسفے پر بہت اثرانداز ہوئے ہیں اورارسطونے اپنی تنقیدوں سے اُن کو نئی قوت اوروسعت بخشی ہے۔ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہماری زبان کے محاورے میں اَفلاطون کی عظمت کا تصور بدل گیا ہے اورایسے لوگوں کے لیے یہ محاورہ استعمال ہونے لگا ہے جوخواہ مخواہ اپنے اوپر مغرور ہوں اوراپنی معاشرتی زندگی میں اس کا موقع بہ موقع اظہارکرتے رہتے ہوں۔ اسی لئے اَفلاطون کاسالہ اورافلاطون کاناتی بھی محاورے میں شامل ہوئے۔ اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کس طرح دوسرے ملکوں کے کرداروں کو اپنے یہاں جگہ دی اوراُن کی شخصیت کواپنی طرف سے نئے معنی پہنائے ۔
(۶۴) افواہ پھیلانا، افواہ اُڑانا۔
افواہ جھوٹی سچی باتوں کو کہتے ہیں۔ عام آدمی کو کسی بات میں اِس رشتے سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ وہ بات سچی ہے یا جھوٹی غلط ہے یا صحیح مناسب ہے یا غیرمناسب وہ توباتوں کو پھیلاتا اوران سے اپنی دلچسپیوں کا اظہارکرتاہے۔ غالبؔ نے تودہلی کے لوگوں کی ایسی باتوں کا ذکرکرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ دہلی کے خبر تراشوں کا جیساکہ دستور ہے انہوںنے اپنی طرف سے خبراُڑادی ۔ اسی خبراڑانے کو افواہ اڑانا کہتے ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے کے مزاج اورخواہ مخواہ کی باتوں سے دلچسپی کا پتہ چلتا ہے ۔ مصرعہ ہے ۔اسی انداز کی ایک بات ہے۔ اڑتی سی اک خبرہے زبانی طیورکی
(۶۵) آکھ کی بڑھیا۔
’’آکھی ‘‘ایک خاص طرح کا پودا ہوتا ہے جسے آک بھی کہتے ہیں۔ یہ پودا گرمی کی شدید اداؤںمیں پروان چڑھتا ہے اوراُس کے پتے اورپُھول بہت تروتازہ ہوتے ہیں۔ اس کے بیج کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہرے خول میں بندرہتے ہیں۔ جب وہ خول کُھلتا ہے توچھوٹے چھوٹے بیج بالوں جیسے بہت سارے ریشوں کے درمیان ہوتا ہے جوہوامیں اڑتے پھرتے ہیں۔ انہیں بچے پکڑتے ہیں اورپھراپنی پھونک سے اڑدیتے ہیں۔ ان بالوں کو اوربیج کوآک کی بڑھیا کہتے ہیں یعنی سفید بالوں والی بُڑھیا جواڑتی پھرتی ہے۔ ایسی ہی ایک مشین بھی ہے جس میں شکر سے سفید سفید بالوں جیسا ایک گھچا پیدا ہوتا ہے۔ اسے سمیٹ لیتے ہیں۔ وہ بھی بڑھیا کے بال کہلاتے ہیں۔ یہ محاورہ جومشینی دورتک آگیا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بوڑھی عورت اپنے سفید بالوں کے ساتھ بچوںاور بڑوں کو کسی نہ کسی خاص معنی میں متاثر کرتی ہے۔ کہانیوں میں بھی اکثر بوڑھی عورتوں کا ذکرآتاہے مگرشفقت ومحبت کے ساتھ نہیں ایک طرح مکاری کے ساتھ۔
(۶۶) اُکھاڑپچھاڑ۔
اکھاڑنا بھی بیشتر اچھے معنی میں نہیں آتا، جیسے اُس کو اکھاڑدیا گیا وہ اکھڑگیا اس کی جڑاکھڑگئی جڑبنیاداکھاڑکر پھینک دی گئی۔ یہ سب ایک طرح کے سماجی عمل ہیں اوراُن میں فردیا جماعت کا ایسا عمل شامل ہے جوذاتی طور پر یاجماعتی طورپر نقصان دینے والاہو۔ یہی صورت پچھاڑکی ہے۔ پچھڑجانا،پچھاڑکھانا، پچھاڑدینا شکست دینے کے معنی میںآتاہے یا پھراس میں بے چینی اورناکامی کا مفہوم شامل رہتاہے۔ یہاں اکھاڑپچھاڑانہیں مطالب کا جامعہ ہے اوراس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ بہت اکھاڑ پچھاڑکی یا اکھاڑپچھاڑکھائی۔ اکھاڑپچھاڑمچانا بھی اسی دائرہ میں شامل ہے۔ پہلے زمانہ میں جب جھڑپیں ہوتی تھیں ، لوٹ مار ہوتی تھی۔ اسی کو اکھاڑپچھاڑبھی کہتے تھے۔ اکھاڑپچھاڑمچانا اسی طرح کا عمل ہے۔ فتنہ فساد برپا کرنے والوں کو بھی اکھاڑپچھاڑمچانے والا کہتے تھے۔ خاندانی جھگڑے جب بڑھ جاتے تھے تووہ بھی ایک طرح کی اکھاڑپچھاڑتھی جس کے ذمہ دار خاندان ہی کے لوگ ہوتے تھے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ محاورہ بھی ایسے محاورات میں سے ہے جوسماج کی فطرت انسانی ذہنی روش اورسماجی، معاشرتی اورخاندانی تنظیم کو بگاڑدینے کا عمل اس میں شامل ہے۔۔
|